دین کی غلط تشریحات پارٹ ٹو۔


دوستوں کا اسرار تھا کے مذہب کی غلط تشریحات پر مزید لکھا جائے تو اپنی سی کوشش کی ھے مزید لکھنے کی۔
زیادہ نہیں آج سے بیس پچس سال پہلے پاکستان میں مذہب
کے ٹھیکیداروں نے یہ نظریہ عام کیا ھوا تھا کے عورت کا جوب کرنا غیر اسلامی ھے،
جو لڑکی بھی جوب کرتی اسے ناپسند کیا جاتا تھا یہاں تک کے جس گھر کی لڑکی
جوب کرتی لوگ اس گھر میں رشتہ کرنا معیوب سمجھتے تھے، یہ تو حالت تھی شہری علاقوں کی دیہی علاقوں میں تو آج تک بھی لڑکی کا جوب کرنا انتہائی معیوب سمجھا جاتا ھے اور شہری علاقوں میں بھی آج تک ایسے لوگ خاصی بڑی تعداد میں
موجود ہیں جو لڑکی کا گھر سے باہر نکلنا تک معیوب سمجھتے ہیں پڑھانا یا جوب کرنا تو
بہت ہی دور کی بات ھے، جیسے جیسے وقت گزرتا گیا شعور عام ھوتا گیا دنیا میں
تبدیلیاں آنی شروع ہوئیں دنیا گلوبل ولیج بن گئی تو حقائق مسخ کرنے والے ان پھپھوندی لگی ذہنیت رکھنے والے ملاوں کے ھاتھوں سے وہ معاملات نکلنا شروع ھوگئیے جن کی پاکستان بننے کی ابتداء ہی سے بائے ڈیزائن غلط تشریحات کی گئئ تھیں.
اسلام میں کہیں بھی عورت کو کام کرنے سے نہیں روکا گیا ھے، جنگوں کے دوران
عورتوں کا بھی اپنا ایک کردار رہا ھے مجاہدین کے لئیے کھانے پینے کا بندوبست کرنا
رسد باہم پہنچانا اس ہی طرح کی کئی زمہ داریاں نبھاتی تھیں، ایسا کہیں منع نہیں آیا
کے عورت جوب ہی نہیں کر سکتی ہاں اسلام نے کچھ اصول وضع کیئے ہیں کچھ پیمانے
ہیں انکی پاسداری کرتے ہوئے کوئی بھی عورت جوب کرسکتی ھے، پاکستان میں
خواتین کی تعداد تقریباَ باون فیصد ھے جب کے مردوں کی تعداد اڑتالیس فیصد ھے یعنی
تصور کریں کے تقریباَ آدھی تقریباَ آٹھ کروڑ آبادی کو تو ہم نے بہ یک جنبش قلم سے بلکل
ہی کاٹ کے رکھ دیا ملک کی ترقی میں سے، باقی بچے اڑتالیس فیصد جن میں تقریباَ
تیں کروڑ بچے ہیں بوڑھے الگ ہییں یعنی ایک اندازے کے مطابق سترہ کروڑ کی زمہ داری
عائد ہوتی ھے محض چار پانچ کروڑ لوگوں پہ جب کے مہنگائی کا یہ عالم ھے کہ جس
گھر میں چار افراد ہیں اور چار کے چار کما رہے ہیں تو بھی پورا نہیں پڑ رہا تو سوچیں کہ
یہ چار پانچ کروڑ افراد کیسے ترقی دے سکتے ہیں ملک کو؟ یہ تو اپنا حال نہیں سدھار
سکتے ملک کا حال کیا سدھاریں گے؟ وہ کسی شاعر نے کہا تھا کہ، چھوٹی پڑتی ھے
انا کی چادر۔ پاوں ڈھکتا ھوں تو سر کھلنے لگتا ھے۔ میرے کام کی نوعیت کچھ ایسی
ھے کہ ای میلز یا فون کے زریعہ مجھے اکژ چائینہ کے لوگوں سے رابطے میں رہنا پڑتا
ھے میرا مشاہدہ ھے کہ چائینہ میں عورتیں ہر فیلڈ میں ہیں انکی عورتیں صرف گھر
میں چولہہ چکی میں ہی اپنی زندگی نہیں گزار دیتی وہ مردوں کے شانہ بشانہ ملک و
قوم کی ترقی میں برابر سے حصہ لیتی ہیں زیادہ نہیں دس بارہ سال پہلے تک بھی
کراچی کی سڑکوں پہ چائینہ کی خواتین بڑے فخر کے ساتھ آوازیں لگا کے چائینہ بام
بیچا کرتی تھیں تو آج انکی محنت رنگ لائی ھے اور چائینہ پوری دنیا کے لئیے ترقی کی
مثال بن گیا ھے۔
تو سوچیں ہماری یہ سوچ کس نے بنائی کے عورت کا جوب کرنا غلط
ھے غیر شرعی ھے ؟ جواب ملے گا اسلام کے ٹھیکداروں نے، جو جاہل لوگوں کو تو یہ
درس دیتے رہے کہ عورت کا گھر سے باہر نکلنا یا جوب کرنا اسلام میں منع ھے اور خود
اپنی بہو بیٹیوں کو بیرون ملک تعلیم دلواتے رہے قومی اسمبلی کا ممبر بناتے رہے اور
دوسری طرف ان طالبان کی حمایت میں ریلیاں بھی نکالتے رہے جو اسلام کے نام پر
عورت کے گھر سے نکلنے پر اسے باقئیدہ سر عام سزا دیتے ہیں، لڑکیوں کے اسکول بم
دھماکوں سے اڑا دیا کرتے ہیں، ان جاہلوں سے کوئی پوچھے کہ عورت پڑھے گی نہیں
تو ڈاکٹر کیسے بنے گی؟ اور اگر عورت ڈاکٹر نہیں بنے گی تو عورتوں کے پیچیدہ مسائل
کون دیکھے گا؟ مرد ڈاکٹر تہماری عورت کو چھوئے یہ تمہیں منظور نہیں اور اگر کوئی
لڑکی پڑھ لکھ کے ڈاکٹر بننا چاہے تو وہ بھی تمہیں منظور نہیں تو پھر کہاں جائیں آخر یہ
عورتیں اپنا علاج کروانے ؟ باخدا انکی ذہنیت یہ ھے کہ بس دعا کرلو اللہ شفاء دے گا
زندگی ھوئی تو بچ جائیگی ورنہ مر جائے گی، ان جاہلوں کو کوئی یہ نہیں بتاتا کے اونٹ
باندہ کر توکل کا حکم ھے، یہ میں افریقہ کے کسی جنگل کے جنگلیوں کی بات نہیں
کررہا یہ ذہنیت خیبر پختونخواہ کے اکژیتی لوگوں کی ھے جنکی ذہنی پرورش ان ہی زنگ
لگی ذہنیت کے ملاوں کے زیر سایہ ھوتی ھے۔
اب آجائیں نماز کی طرف نماز بےشک نماز فرض ھے نماز کی اہمیت کے لیئے تو یہ حدیث ہی کافی ھے کے، مومن اور کافر کے درمیان فرق نماز ھے۔ نماز پڑھنی ھے ہر حال میں پڑھنی ھے نماز کسی صورت بھی معاف نہیں ھے,اسلام کے ہر حکم میں اللہ تعالی حکمت ھے اسلام کا کوئی بھی ایکٹ بغیر وجہ بغیر لوجک کے نہیں ھے اصل عبادت وہ ہی ھے جو حکم کے مغز کو پوری طرح سمجھ کر کی جائے اللہ کو انسان کے سجدوں کی ضرورت نہیں سجدوں کے لئیے تو فرشتے بہت ہیں اللہ نے نماز خود انسان کی بھلائی کے لئیے فرض کی ھے نماز صرف پانچ وقت سجدے مار لینے کا نام نہیں ھے نماز ایک پورا پیکج ھے مگر صرف عقل و فہم رکھنے والوں کے لئیے غور و فکر کرنے والوں کے لئیے.
وضو کے اپنے دسیوں قسم کے سائینٹفک فوائد ہیں، طہارت پاکیزگی پانچ وقت جسم کی صفائی روح کی صفائی، اب غور کریں آپ کتنے لوگ نماز کو یہ ساری چیزیں سمجھتے ھوئے ادا کرتے ہیں؟ ایسے گندے حلیئےمیں بھی آجاتے ہیں لوگ مسجد میں کے آپ کے برابر میں آکر کھڑے ھوجائیں تو آپکا سانس لینا محال ھوجائے، نماز میں صف بندی ہمیں سکھاتی ھے کہ زندگی کے معاملات میں بھی اس ہی طرح نظم و ضبط کا مظاہرہ کرنا ھے کہ سگنل پہ بھی صف بندی کرنی ھے بس کی لائن کے لئیے بھی صف بندی کرنی ھے راشن کی لائن میں بھی صف بندی کرنی ھے کہیں کسی عمارت میں لفٹ کے انتظار میں کھڑے ہیں تو وہاں بھی صف بندی کرنی ھے، کتنے لوگ صف بندی کے اس کونسپٹ کو سمجھ کر نماز ادا کرتے ہیں ؟ اگر کرتے ھوتے تو آج یہ حشر نہ ھوتا پاکستان کا، سگنل توڑنے کو تو بڑے سے بڑا حاجی نمازی بھی گناہ نہیں سمجھتا، جس جگہ بھی دیکھ لیں جانورں کی طرح رش لگائے کھڑے نظر آتے ہیں لوگ بس اسٹاپ پہ ہی دیکھ لیں بس کے آتے ہی جانورں کی طرح ٹوٹ پڑتے ہیں قصور ان لوگوں کا بھی نہیں مسلہ یہ ھے کہ انہیں بتایا ہی نہیں گیا کے نماز کی حقیقت کیا ھے انہیں بس طوطے کی طرح رٹا دیا گیا ھے کہ جو چاہے کرتے پھرو مگر نماز نہیں چھوڑنی ھے اور یہ ملا بھی کیا بتائیں گے انہیں خود نہیں پتہ کچھ یہ خود رٹا لگا کر آتے ہیں انکی فوقیت کسی مسجد کی امامت ھوتی ھے مہینے میں پانچ چھہ نکاح پڑھانے کو مل جائیں بس ھوجاتا ھے گزارہ۔
نماز یکسوئی سکھاتی ھےکہ کسطرح انسان کو یکسوئی سے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے ہیں مگر کتنے لوگ سمجھتے ہیں یہ بات؟ خاص طور پہ گورنمنٹ آفسز چلے جائیں وہاں آپکو لوگ باقی سارے کام کرتے ہوئے نظر آئیں گے سوائے اس کام کہ جس کام کی گورنمنٹ انہیں تنخواہ دے رہی ھے۔
نماز پابندی اوقات سکھاتی ھے مگر کتنے لوگ ہیں پاکستان میں جو وقت کی پابندی کا خیال رکھتے ہیں؟ سجدہ سکھاتا ھے کہ جو سر اللہ کے آگے جھکتا ھے وہ کسی انسان کے آگے نہیں جھک سکتا مگر یہاں پہلے تو پوری قوم کا سر ہی آئ ایم ایف کے آگے ندامت سے جھکا ھوا ھے، کہیں ترقی پانے کے لئیے افسران بالا کے آگے جھکا ھوا ھے تو کہیں مفادات حاصل کرنے کے لئیے سیاستدانوں کے آگے جھکا ھوا ھےحدیث ھے کہ، نماز برائی سے روکتی ھے۔ مسجدیں بھری ھوتی ہیں نمازیوں سے حج بھی ھورہے ہیں عمرے بھی ھو رہے ہیں اجتماع بھی ھورہے ہیں مگر برائی سے کوئی نہیں رک رہا یہ کیسی نماز ھے جو برائی سے نہیں روک رہی؟ قصور نماز کا نہیں ھے قصور ہمارے رویوں کا ھے ہماری غلط تشریحات کا ھے ھماری عبادات مغز سے خالی ہیں عادتوں کی ورزش سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہیں۔
ایک اور غلط تشریح یہ ھے کہ دنیا کچھ بھی نہیں ھے جو کچھ
ھے صرف آخرت ھے، بیشک کے مسلمان کے لئیے آخرت ہی سب کچھ ھے مگر آخرت
کو پانے کہ لئیے زریعہ اللہ نے اس دنیا کو ہی بنایا ھے جو اس معامولی سی چند سالہ
زندگی کا فاتح نہیں بن سکا وہ اس ہمیشہ قائم و دائم رہنے والی دنیا کا فاتح کیسے بن
سکتا ھے ؟ ہمیں مولوی حضرات بتاتے ہیں کے اسلام مکمل ضابطہ حیات ھے مگر حیات
کی تو کوئی بات ہی نہیں کرتا انکا سارا زور صرف بعد از مرگ پہ ھوتا ھے، تو بھائی یہ
زندگی کیوں دی ھے اللہ نے؟ یہ کائینات کیوں بنائی ھے ؟ اس میں اسرار و رموز کیوں
رکھے ہیں؟ اور پھر قرآن میں ان اسرار و رموز کو تلاش کرنے کا حکم کیوں دیا ھے ؟.
پوسٹ بہت طویل ھوگئی پڑھنے والوں کو گراں گزرے گی آخر میں ایک اور معاشرتی غلط تشریح بیان کرتا چلوں لفظ محبت اسکی بھی ہمارے ہاں غلط تشریح کی جاتی ھے ہم جسے اپنے عزیزوں کے ساتھ محبت سمجھ کر رہے ھوتے ہیں دراصل وہ دشمنی ھوتی ھے مگر ہماری کم علمی کی وجہ سے ہمیں شعور ہی نہیں ھوتا کے ہم اپنے عزیز کے ساتھ محبت کے روپ میں دشمنی کر رہے ہیں اسکی مثال میں آپکو یوں دیتا ھوں اکژ دعوتوں میں ہم اپنے عزیزوں کے لئیے بہت ہی محبت کے ساتھ بڑی محنت سے مرغن قسم کے کھانے بناتے ہیں خاص طور پر گائے کے گوشت کے کھانے نہاری پائے وغیرہ کھانے کے دوران ہم بھیجا نلی چکنی بوٹیاں بڑی محبت سے اپنے عزیزوں کی پلیٹ میں ڈالتے ہیں بظاہر یہ ہماری ان سے محبت ھوتی ھے مگر در حقیقت یہ ھم ان سے دشمنی کر رہے ھوتے ہیں عیدالعضحی قریب ھے عزیزوں کی ایسی محبتیں بڑی وافر مقدار میں مجھے اور آپکو دیکھنے کو ملیں گی.
حکیم سعید نے کہا تھا کے گائے کا گوشت زہر ھے یعنی اس حد تک نقصان دہ ھے بلڈ پریشر کا مریض بناتا ھے خون کو گاڑھا کرتا ھے اسکی چکنائی دل کے والو بند کرتی ھے بے انتہا بادی ھوتا ھے جس کی وجہ سے خونی بواسیر جیسا موزی مرض ھوجاتا ھے، مگر بات وہ ہی ھے کے نہ ہم پڑھتے ہیں نا غور و فکر کرتے ہیں ہمیں پتہ ہی کچھ نہیں ھوتا، حدیث ھے کے گائے کے دودھ میں شفاء ھے اور گوشت میں وباء ھے۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےاپنی پوری زندگی میں صرف ایک بار گائے کا گوشت کھایا ھے اور وہ بھی نیل گائے کا جس کے گوشت کی تاثیر قدر مختلف ھوتی ھے عام گائے سے، اللہ ھم سب کو دین کا مغز سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں اور ہمارے ان مولوی حضرات کو بھی حق اور سچ کہنے کی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ھو کر قوم کو دین کی حقیقی روح کے عین مطابق دین کی تشریحات کرنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔

This entry was posted in مذہب. Bookmark the permalink.

17 Responses to دین کی غلط تشریحات پارٹ ٹو۔

  1. آج سے ہم نے گائے گوشت نہیں کھانا ھے۔
    جے رام

  2. fikrepakistan نے کہا:

    یاسر بھائی سب سے پہلے آپ کی خدمت میں سلام عرض ھے، اور بھائی گائے کا گوشت بلکل ہی ترک نہ کریں ورنہ گائے کی آبادی تو انسانی آبادی سے بھی تجاوز کر جائے گی۔

  3. موضوع تو اچھا تھا مگر آپ نے پوری طرح اس کا احاطہ نہیں کیا۔ اچھا ہوتا ایک پوسٹ میں ایک مسئلہ زیر بحث لاتے۔ ویسے اس پوسٹ میں موضوع کے حساب سے صرف عورت کا نوکری کرنا یا نہ کرنا شاید دین کی تشریح میں آئے۔ اس کے بعد تو جو بھی آپ نے لکھا وہ معاشرتی رویوں پر لکھا اس میں دین کی غلط تشریح کا کوئی عنصر شامل نہیں ہے۔
    بات آپ کی درست ہے کہ عورت کو کام کرنے سے نہیں روکا گیا مگر عورت اور مرد یعنی مخلوط محفلوں سے روکا گیا ہے۔ عورت اگر مرد کیساتھ مل کر کام کرے گی تو جہاں رزق میں اضافہ ہو گا وہاں بہت ساری معاشرتی برائیاں بھی جنم لیں گی۔ ان معاشرتی برائیوں کو کنٹرول کرنے کیلیے عورت کے کام کرنے سے پہلے اس کی تربیت بہت ضروری ہے تا کہ اگر وہ مردوں کے بیچ کام کرے تو اپنے آپ کو سنبھال سکے اور مردوں کی کھا جانے والی نظروں کا مقابلہ کر سکے۔

    • fikrepakistan نے کہا:

      میرا پاکستان ممکن ھے میری تحریر میں کوئی کمی کجی رہ گئی ھو مگر میرا خیال ھے کے گائے کے گوشت والے معاملے کو چھوڑ کہ باقی سب کا تعلق دین کی غلط تشحات سے ہی ھے۔ نماز کی جو تشریح بیان کی گئی ھے کتنے لوگ نماز کی اس گہرائی کو سمجھ کے پڑھتے ہیں؟

      • fikrepakistan نے کہا:

        جاوید بھائی اسلام و علیکم، تجزیئہ کا بہت بہت شکریہ، آپ خاصے جذباتی ھوگئے میرا مقصد آپکی یا کسی کی بھی دل آزاری ہرگز نہیں ھے، میں نے اپنی پوسٹ میں ہر پاکستانی کے مذہبی رویے کی بات کی ھے صرف مولوی حضرات کی نہیں، گورنمنٹ آفسز کا زکر بھی اس ہی پیرائے میں کیا گیا ھے، رہی سگنل توڑنے کی بات تو اسکا زکر اسلئیے کیا کے چاہے وہ کوئی عام آدمی ھو یا کوئی مذہبی سوچ سمجھ رکھنے والا ھو دونوں کا رویہ ایک جیسا ہی ھوتا ھے عام آدمی جسےمذہب کی کوئی سوجھ بوجھ ہی نہیں ھےوہ تو کم علم ھے اسے دین کی سمجھ بوجھ نہیں تو اسے تو خود ساختہ یہ استثناء حاصل ھے کے اسے معلوم ہی نہیں کے گناہ ثواب ھوتا کیا ھے وہ تو پاکستان کے اکژیتی لوگوں کی طرح جانورں کی زندگی جینے میں ہی خوش ھے وہ نہ دین کا ھے نا دنیا کا، مگر جنہیں دین کا شعور ھے انکا عمل بھی اگر ایسے ہی لوگوں کی طرح ھوگا تو فرق کیا رہ جائےگا دونوں میں؟ اسلئیے جسے صحیح معنوں میں دین کا شعور ھوگا وہ کبھی بھی سگنل نہیں توڑے گا، تو بھائی جب کوئی ایسا شخص جب سگنل توڑتا ھے تو زیادہ دکھ ھوتا ھے کہ با ریش ھے پیشانی پہ نماز کا نشان بھی ھے مگر پھر بھی اسے یہ شعور نہیں کے سگنل توڑنا کتنا بڑا جرم ھے اگر اسے ان لوگوں نے جنکے زیر سایہ وہ زہنی پرورش پاتا ھے یعنی مولوی حضرات کی سنگت تو ان لوگوں نے اسے بتایا ہی نہیں کہ سگنل توڑنا کتنا بڑا جرم ھے کیا آپکو نہیں لگتا کے سگنل توڑنا مذہبی شعور کے خلاف ھے؟ ہمارا تو معاشرہ تو ھے ہی جانورں پر مشتمل یورپ میں سگنل توڑنا مطلب قتل کرنے کہ مترادف سمجھا جاتا ھے کیوں کے دوسری طرف سے جو آرہا ھوتا ھے وہ اس اعتماد کے ساتھ آرہا ھوتا ھے کہ میرا سگنل کھلا ھوا ھے ایسے میں کوئی اچھانک اس کے سامنے آجائے تو جان تک چلی جاتی ھے اسلئیے ہی اسے یورپ میں قتل کے مترادف جرم سمجھا جاتا ھے، میں نے تو ہر پاکستانی کے رویہ کی مذمت کی ھے اس میں چاہے کوئی ڈاکڑا انجینئیر ھو یا کوئی بھی ھو یہ ہی تو میں کہنا چاہ رہا ھوں کے ھم سب کی ہی تشریحات غلط ہیں دین سے مطعلق۔ پھر آپ نے فرمایا کہ مولوی بے چارہ تو مانگے تانگے کی روٹی کھاتا ھے اور جو کچھ اسے آتا ھے وہ خلوص نیت سے آگے بڑھا دیتا ھے، تو بھائی کس نے کہا ھے اسے مانگے تانگے کی روٹی کھانے کو؟ یہ تو اسکی اپنی ناکاریت ھے کہ اس نے خود کو زنگ لگا لیا ھے اور وہ مزید کوئی کام ہی نہیں کرنا چاہ رہا تو روٹی تو پھر مانگ تانگ کر ہی کھانا پڑے گی، کس نے روکا ھے اسے کوئی دوسرا کام کرنے سے ؟ بات یہ ھے کہ وہ کوئی دوسرا کام کرنا ہی نہیں چاہتا ۔ ھوا جو عشق میں ناکام تو کیا کرونگا ؟۔ مجھے تو کوئی اور کام بھی نہیں آتا۔ کہاں لکھا ھوا ھے کہ مولوی صرف امامت کر کے ہی پیسے کمائے گا ؟ اسلام کی رو سے تو بھائی نماز پڑھانے کے پیسے لینا ہی جائز نہیں ہیں۔ مگر ہمارے مولوی حضرات مکمل اکتفا ہی امامت پہ کرتے ہیں، مجھے آپ ثابت کر دیں کے اسلام میں امامت کے پیسے لینا جائز ہیں۔ یہ تو انکی اپنی سستی اور کاہلی ھے کہ وہ کوئی اور کام کرنا ہی نہیں چاہتے ورنہ اگر گورنمنٹ انہیں جوب نہیں دیتی تو کوئی اور کام کر لیں میں نے خود سالوں کوشش کی گورنمنٹ جوب کی مگر مجھے بھی نہیں ملی جب کہ میں تو ملا بھی نہیں ھوں، اور یہ آپ نے بہت ہی لوور لیول کے لوگوں کا ذکر کیا ھے جو واقعی میں بہت بری حالت میں زندگی گزار رہے ہیں مجھے خود ہمدردی ھے ایسے اماموں سے جو بےچارے اتنی مہنگائی میں اتنی کم آمدنی میں اپنا گزارہ کرتے ہیں میرا اشارہ ان لوگوں کی طرف تھا جو بڑے بڑے نام ہیں مذہب کے ٹھیکیداروں کے جیسے، مولانا فضلل رحمان، قاضی حسین احمد، جنکی اپنی اولادیں امریکہ میں پڑھی ہیں ایک بیٹا ڈاکٹر ایک بزنس مین بیٹی اور بہو ممبر آف پارلیمنٹ رہ چکی ہیں میں تو ان جیسے منافقوں کی بات کررہا تھا بھائی جنھوں نے اپنے بچے امریکہ میں پڑھائے اور غریب کے بچے کو نام نہاد جہاد کا درس دے کر مروا دیا۔ اور رہی بات یہ کے سیاستدان چور ہیں لٹیرے ہیں تو بلکل صحیح ھے آپکی بات میں کب ان کی شان میں قصیدے پڑھے ہیں ؟ مگر سیاستدانوں اور ملاوں میں فرق یہ ھے بھائی کہ سیاستدان کھلا دشمن ھے قوم کا سب کو پتہ ھے وہ جنت کا وعدہ کر کے نہیں بہکا رہا قوم کو، لوگ مذہبی جماعتوں کی طرف اسلئیے رخ کرتے ہیں کہ یہ ہمیں ٹھیک راستہ دکھائیں گے تاکے ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور سکیں مگر ایسا کب ھوتا ھے؟ ھوتا اسکے بلکل برعکس ھے سیاستدان اگر سیاست کے نام پر بے وقوف بناتا ھے تو مولوی حضرات مذہب کے نام پر بےوقوف بناتے ہیں یہ زیادہ خطرناک عمل ھے کہ کسی کے مذہبی جذبات کو آپ نے اپنی کامیابی کا زینہ بنالیا، عبداللہ شاہ غازی رحمت اللہ علیہ صاحب کے مزار پہ جو خود کش حملہ ھوا اس میں ایک خودکش بمبار کی عمر چودہ سال ھے آپ بتائیں مجھے کہ کونسے مذہب کی خدمت کی گئی ھے ایک بچے کے مذہبی جذبات سے کھیل کر ؟ یہ جتنے بھی فرقے آپس میں لڑ مر رہیے ہیں ان کا ذہن کون بنارہا ھے ؟ سیاستدان تو ہیں ہی کنجر مگر آپ لوگ کیا کر رہے ہیں ؟ آپ کس طرح ان سے مختلف ہیں یہ بھی بتا دیں؟ مقصد دونوں کا ایک ہی ھے لبادہ الگ الگ ھے بس۔ رہی گائے کے گوشت کی بات تو اسے آپ نے جذباتیت کے پیرائے میں دیکھا ھے، میں کب کہا کے گائے کا گوشت حرام ھے؟ میں نے تو حدیث بھی بتائی ھے آپکو کے گائے کے دودھ میں شفاء اور گوشت میں وباء ھے، آپ اپنے حلقے میں تصدیق کر لیں اس بات کی۔ میں نے پوسٹ میں لکھا ھے کہ یہ معاشرتی غلط تشریح ھے۔

  4. بھائی صاحب!۔

    ایک بات کی سمجھ نہیں آئی۔ پاکستان میں روشن خیالوں اور نام نہاد سیکولروں کی سنت کے عین مطابق آپ مولوی بے چارے کو کینچھتے کینچھتے گورنمنٹ آفسز میں نکل لییے جہاں تو مولوی نام کی کسی شئے کا گزر نہیں ہوتا۔ گورنمنت آفیسر تو بجائے خود مولوی بے چارے کی ضد ہوتا ہے تو پھر اسکے سگنل توڑنے پہ بے چارے مولوی کا کیا قصور؟۔

    پاکستان میں تو عالم فاضل اور سائینس میں پی ایچ ڈی کرنے والے اور والیاں بھی سگنل توڑنے اور ٹریفک کی اصولوں کی خلاف ورزی کو فخریہ بیان کرنے والے دوسروں کو نصحیت اور خود میاں فصحیت کی مانند دوعملی اور دوغلی اپنانے والے جنہیں مولوی یا اسلام کی کسی بھی علامتی شناخت سے چڑ ہے اور مولوی کا ذکر آتے ہی انکا ہاضمہ خراب ہو جاتا ہے ۔ مگر آپ کا بھی سارا زور پاکستانی معاشرے کے باقی پسے ہوئے ایم کرداروں کی طرح آپ کا حسن انتخاب بھی طنز و تشنیع کے لئیے بے چارے مولوی کے نام ہی نکلا ہے۔ کیا سکی کوئی خاص وجہ ہے؟۔

    ایک اور نکتے کی وضاحت کر دی جئیے کہ پاکستان میں پاکستان کے مکمل وسائل پہ پچھلے باسٹھ سالوں سے ایک سے بڑھ کر ایک بۓ غیرت اور ڈھیٹ قسم کے لوگ قابض چلے آرہے ہیں ۔ کیا اس میں بھی مولوی بے چارے کا قصور ہے کہ وہ مانگے تانگے کی روٹی کھا کر مقدور سے بڑھ کر کوشش کرتا ہے اور رٹہ ہی سہی مگر کم از کم خلوص نہت سے جو اسے خود کو آتا ہے وہ اسے مقدس فریضہ سمجھ کر معاشرے کی اپنی طرح کی بے بس اکثریت کے بچوں کو منتقل کر دیتا ہے۔

    بقول آپ کے کچھ دیر کے لئیۓ مولوی کو پاکستانی معاشرے کا ناپسندیدہ ترین کردار سمجھتے ہوئے اسے ایک طرف کر دیتے ہیں اور آپ سے ایک سوال گزارش کرتاہوں کہکیا کبھی آپ نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ لوگ جو لازمی اور قطعی طور پہ مولوی نہیں مگر پاکستان کے مکمل وسائل پہ قابض ہیں انہوں نے پاکستان میں تعلیم و صحت کی ذمہ داریوں کو بناھنے کے لئیے ان مکمل دستیاب وسائل سے کس قدر وسائل کو اپنے عوام پہ خرچ کیا ہے؟ ٹریفک سگنل کا احترام اور ٹریفک قوانین کی پابندی کی طرح دیگر بارے قوانین اور ضابطوں کے بارے میں آگاہی۔ عوام کو تعلیم و شعور ، قوم میں اجتماعیت اور کماحقہ بیدار مغزی پیدا کرنا مولوی سے زیادہ ان پہ فرائض ہی جنہوں نے اس کام کے نام پہ یہ بڑی بڑی منسٹریز قائم کر رکھی ہیں جو مولی نہیں اپنے آپ کو مسٹر اور منسٹر کہلواتے ہیں ۔ جن کا اٹھنا بیٹھنا ، بولنا چالنا الغرض ایک ایک انگ اور بوٹی سے نہ صرف انگریزی ٹپکتی ہے بلکہ انگریز کی فخریہ خوئے غلامی چھلکتی ہے، جو تعلیم اور قوم کے نام پہ ملینز ڈالر مہینوں میں اس پار کر دیتے ہیں ، جو پاکستان کا مستقبل بیچ کر اپنی جیبیں بھر رہے ہیں مگر علم و ھنر سے قوم کو دور سے دور تر کر رہے ہیں ۔ یہ انکے فرایض میں آتا ہے کہ وہ جس منصب اور وزارتوں کے ذمہ دار ہیں ان کو پورا کریں ۔ مولوی اور ہما شما کا اس سارے قصے میں کیا ذکر؟۔

    آپ نے کبھی پاکستان کی سرکاری اسکولوں کو اندر سے دیکھا ہے کہ انکی درگت کیسی ہے؟ کتنے اساتذہ اور اسکول محض بھوت ہیں ۔ بھوت بنگلے بھی نہیں۔ کیا اس کا بھی قصور وار مولوی ہےـ؟

    کیا آپ کے علم میں کہ پاکستان میںغریب اور نادار بچوں اور بڑوں کی کتنے لاکھ تعداد انھی مولویوں کی وجہ سے علم حاصل کر رہی ہے؟۔ نہ صرف علم بلکہ یومیہ کھانا اور رہائش بھی؟۔ جبکہ یہ مولوی حکومت کی ایک پائی کی بھی روادار نہیں۔ اور دوسری طرف حکومت جو مسٹر اور منسٹرز وغیرہ ہیں وہ تو پاکستان کے امن وعامہ سے لیکر صحت و تعلیم تک کسی ایک مسئلے کو بھی حسن نیت سے درست نہیں کر سکے۔

    آخر پاکستان کے اکثر مدارس کی تعلیم اور ان سے فارغ التحصیل طلباء پاکستان کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کے فارغ التحصیل طلباء سے کہیں زیادہ بہتر اور قابل ہونے کے باوجود انہیں کار سرکار اور سرکاری ادارے انکی تعلیمی قابلیت کو ماننے سے انکاری ہوتے ہیں اور انہیں سرکاری ملازمتوں میں نہ ہونے کے برابر لیا جاتا ہے۔ آخر کیوں؟ کیا آپ کو علم ہےَ؟

    بھائی صاحب!۔ منافقت کا ایک کاروبار ہے جو بدقسمتی سے پاکستان میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلا ہوا ہے ۔ جس میں ہر دوسرے فرد کا منہ کالا ہے۔ اور ایسے میں مولوی مولوی کی دل پسند گردان بہتوں کو بھاتی ہے۔ اللہ کی شان ہے کہ وہ مولوی جو پاکستان کی سب سے بڑی این جی اوز ہیں انکی خدمات کا اعتراف اور انکی حوصلہ افزائی کرنے کی بجائے سب اسے مزمت و ملامت کر کے اپنے تئیں دین کی خدمت کرنے کا پروہپگنڈہ کرتے نظر آتے ہیں ۔ یہ آجکل کچھ عالمی ایجنڈا بھی ہے اور کچھ پاکستان کے کالے انگریزوں کی جائے پناہ بھی۔

    مولوی کاروبار ریاست میں نہ تینوں میں نہ تیرا میں اور جو اسے تھوڑا بہت علم و رزق نصیب ہے وہ اسے بھی دوسروں پہ لٹاتا چلا آرہا ہے مگر وائے ملامت بھی آپ اسے ہی ٹہرا رہے ہیں۔۔

    گائے کا گوشت اسلام میں حلال ہے اور اسلام میں اور بہت سی حلال غذاؤں کی طرح انسانی صحت کے لئیے بے شمار خوبیوں سے بھرپور ہے۔ البتہ ہنود یعنی ہندوؤ گائے کا دودھ پیتے ہیں اور گوشت نہیں کھاتے ۔ مسلمانوں پہ اسطرح کی کوئی پابندی نہیں۔ آپکی موضوع سے ہٹ کر اس تاویل کی سمجھ نہیں آئی۔

    جہاں تک عنیقہ بی بی! کی پوسٹ پہ کاشف نصیر صاحب کا تبصرہ ہے اس بارے میں عرض ہے کہ بہت ممکن ہے کہ انکے الفاظ آپ کو کچھ یوں ہی لگے ہوں کہ جس طرح کے آپ نے انکے الفاط سے من پسند معانی نکالے ہیں مگر جہاں تک مجھے انکی تحاریر پڑھنے کا اتفاق ہوا ہے اور یہ کاشف نصیر صاحب پہ ہی بس نہیں بلکہ دنیا کا ہر مسلمان جو دین کو سمجھتا ہے وہ یہ جانتا ہے کہ دین اسلام دنیا میں آخرت کے لئیے بنیاد فراہم کرتا ہے۔ اور دنیا میں کئیے گئے نیک و بد کاموں کا حساب ہی اگلی دنیا کے لئیے اچھا یا برا آغاز ہوگا۔بہت ممکن ہے کہ کاشف نصیر صاحب نے کسی خاص سیاق سباق میں یہ بات کی ہو جو مخصوص پس منظر سے ہٹ کر اچنھپا محسوس ہوتی ہو ۔ بہر حال اس بارے میں بہتر جواب تو کاشف نصیر صاحب ہی بتا سکتے ہیں لیکن میری رائے میں وہ دنیا و آخرت دونوں کے لئیے دین اسلام کی افادیت سے کماحقہ واقف لگتے ہیں۔ اللہ تعالٰی ہم سبکو معاف فرمائے اور ہمیں حق سچ پہ چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔

  5. جاویداقبال نے کہا:

    نوائےوقت میں نوربصریت کایہ کالم پڑھیں۔
    حضرت پیر پیراں سید عبدالقادر جیلانیؓ نے فرمایا: ’’جاہلو! عالموں کے پاس بیٹھو۔ علم اللہ والوں کی زبان سے حاصل ہوتا ہے۔ عالموں کے پاس جائو تو حسن ادب سے بیٹھو۔ اہل معرفت کے پاس جائو‘ تو خاموش بیٹھو۔
    فیض نظر کے لئے ضبط سخن چاہئے
    حرف پریشاں نہ کہہ اہل نظر کے حضور
    زاہدوں کے پاس بیٹھو‘ تو ان کیلئے رغبت لے کر بیٹھو کہ ہم بھی ان جیسے ہو جائیں۔
    ’’عارف کی کیفیت ہر آن ترقی پذیر ہے وہ ہر لمحہ پہلے لمحہ سے زیادہ حق تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے۔ اپنے رب کیلئے اس کا خشوع ہر لحظہ بڑھتا ہے وہ حاضر کے سامنے جھکتا ہے‘ غائب کے سامنے نہیں‘ (عارف کے مشاہدہ حق تعالیٰ کی طرف اشارہ ہے) ۔ جتنا اس کا قرب بڑھتا ہے‘ اتنا ہی اس کا خشوع بڑھتا ہے۔
    ہر لحظہ نیا طور نئی برق تجلی
    اللہ کرے مرحلہ شوق نہ ہو طے
    جس نے اللہ تعالی کو پہچان لیا‘ اسکے نفس‘ اسکی طبعیت اسکی عادت اور اسکے وجود کی زبان گونگی ہو گئی البتہ اسکے احوال و مقام اور اسے حاصل شدہ عطا و بخشش کی زبان ان نعمتوں کے اظہار اور سپاس شکر کیلئے گویا ہو جاتی ہے۔ پس اسکی محبت میں خاموش بیٹھ تاکہ پاس کے قلب سے چھلکنے والے آب زلال سے اپنی پیاس بجھا سکے‘ جو شخص عارفوں کے پاس بیٹھتا ہے‘ وہ اپنے نفس کی گھاتوں سے باخبر ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان نفس ہی حجاب ہے۔ جس شخص نے اپنے نفس کو پہچان لیا‘ وہ اللہ تعالیٰ کیلئے باادب اور اسکی مخلوق کیلئے متواضع ہوا۔ عارف اللہ تعالیٰ کے دروازہ پر کھڑا ادنیٰ خدمتگار ہے۔ عارف صاحب مقام ہے اور مقام قائم ر ہنے والی شے ہے۔ ’’ قلبدرست ہو جائے‘ تو بندہ مخلوق سے لاتعلق ہو جاتا ہے (یعنی مخلوق کی پسند و ناپسند سے بے نیاز ہو جاتا ہے) وہ مخلوق میں رہتا ہوا بھی خلوت میں ہوتا ہے۔
    شمع محفل کی طرح سب سے جدا‘ سب کا رفیق
    ’’غافل! اپنے عمل میں اخلاص پیدا کر (یعنی عمل کا مقصد صرف حق تعالیٰ کی خوشنودی رکھ) ورنہ تیرا عمل فضول مشقت ہوگا۔ خلوت و جلوت میں اللہ تعالیٰ کی طرف ہی دھیان رکھ حق تعالیٰ تجھے ہر حالت میں دیکھ رہے ہیں‘ نہ تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ سے چھپ سکتا ہے نہ انکے احاطہ علم سے باہر ہو سکتا ہے۔
    ’’جب تو اللہ تعالیٰ کا شکر گزار بندہ بن جائیگا‘ تو مخلوق کے قلوب میں تیری احسان مندی کا احساس اور انکی زبانوں پر اس کا بیان ہوگا اور لوگ تجھ سے محبت کرنے لگیں گے۔ ’’دنیا کے بندو! میر ے پاس آئو اور مجھ سے وہ چیز سیکھو جس سے تم بے خبر ہو۔

  6. ABDULLAH نے کہا:

    دین کی غلط تشریحات پر آپکے دونوں مضامین بہت عمدہ ہیں!!!!
    سچ تو یہ ہے کہ گائے کے گوشت والی بات بھی نہایت اہم ہے، ہم مسلمان گوشت کھانے کو بھی ایک اسلامی فریضہ سمجھتے ہیں بلکہ بھی کی جگہ ہی لگادیں تو بات ذیادہ واضح ہوجائے گی!:)
    کچھ عقل کے اندھوں کے لیئے روشن خیال اسلام کی ایک شکل!!!!
    http://www.voanews.com/urdu/news/American-Muslims-Gathering-08Oct10-104581059.html

  7. fikrepakistan نے کہا:

    عبداللہ حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ، گائے کے گوشت سے متعلق اپکی رائے بلکل ٹھیک ھے۔

  8. ھارون اعظم نے کہا:

    عورت اسلامی حدود میں رہتے ہوئے نوکری اور تجارت میں حصہ لے سکتی ہے۔ رہی بات گائے کے گوشت کی، تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ بھینس کے گوشت کا حلال ہونا بھی گائے سے مشابہت کی بناء پر ہے۔ اب گائے کے گوشت کو چھوڑا جائے تو بھینس کا گوشت بھی گیا۔

    • fikrepakistan نے کہا:

      ہارون اعظم بھائی پہلی بات تو یہ سمچھ لیں کہ میں نے مذہب کے حوالے سے یہ بات نہیں کہی ھے میڈیکل سائینس سے پروو ھے کے ریڈ میٹ ہی صیحت کے لئیے مضر ھے چاہے وہ گائے کا ھو یا بھینس کا دونوں ہی انتہائی بادی ہوتے ہیں بس اتنی سی بات ھے۔

  9. کاشف نصیر نے کہا:

    یہ عبداللہ کا روشن خیال اسلام ہمیشہ وائس اوف امریکہ سے کیوں طلوع ہوتا ہے؟؟؟؟؟؟

  10. Asif Ali Ansari نے کہا:

    bhai boht he umda tehrer hey, Allah aap ko jazae kher atta farmae, Aameen

  11. اتنے لمبے لمبے تبصرے آ گئے ہيں کہ مجھ ميں پڑھنے کی ہمت نہيں ۔ پہلے سر کی چوٹ لئے بيٹھا رہا پھر يرقان نے آ دبوچا ۔ اللہ کا شکر ہے اب بہتر ہوں
    بيٹا جاب پر آپ نے بہت لمبا لکھ ديا ۔ آجکل تو پورے پردہ کے ساتھ لڑکيا دفاتر ميں کام کر رہی ہيں ۔عورت کے جاب کرنے پر کوئی پابندی قرآن و حديث ميں نہيں ہے ۔ بے پردہ مخلوط محفلوں پر پابندی ہے ۔

    طالبان کا آپ نے ذکر کيا ۔ ان کی کئی قسميں ہيں ايک قسم جسے تحريک طالبان پاکستان کہتے ہيں يہ لوگ مرسينری ہيں يعنی دولت کی خاطر کام کرتے ہيں ۔ ان کی وجہ سے اصلی طالبان بھی بدنام ہيں ۔ طالبان وہ ہيں جو دينی تعليم حاصل کرتے ہيں ۔ ان کا ذاتی کردار اُن کی اپنی ذمہ داری ہے

Leave a reply to کاشف نصیر جواب منسوخ کریں