تم ہمارا صبر آزماو ہم تمہارا جبر آزماتے ہیں۔


تم وقتی طور پر میرے عمل پہ پابندی لگا سکتے ہو میری سوچ میرے نظرئیے پر نہیں، نظریہ زندہ رہے سوچ زندہ رہے تو وہ دوبارہ تازہ دم ہوکر پہلے سے زیادہ شدت کے ساتھہ خود کو منوا لیتا ہے، ضیاء الحق کے دور میں پیپلز پارٹی دشمنی میں سندھہ میں بمباری تک کی گئی، لیکن کیا پیپلز پارٹی ختم ہوگئی؟ دس سال ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن کیا ہزاروں مہاجروں کو شہید کیا نتیجہ کیا نکلہ؟ اب پھر وہ ہی عمل دوہرایا جا رہا ہے تو کیا نتیجہ مختلف نکلے گا؟ آئن اسٹائن نے کہا تھا ایک کام کو ایک ہی طریقے سے بار بار کرنے کے بعد مختلف نتیجے کی توقع رکھنا بے وقوفی ہوتی ہے، جو لوگ ایم کیو ایم کو محض ایک جماعت سمجھتے ہیں وہ عمران خان کی جنت میں رہتے ہیں، ایم کیو ایم ایک نظریئے کا نام ہے چالیس سال شناخت کے لئیے بھٹکتی قوم کو بے انتہا قربانیاں دینے کے بعد ایک شناخت ملی ہے اب تمہارا باپ بھی اسے نہیں چھین سکتا، الطاف حسین اب ایک نہیں رہا، کروڑوں مہاجروں کے دل و دماغ میں نظریہ الطاف گھر کر چکا ہے، اب الطاف حسین رہے یا مائنس کر دیا جائے کوئی فرق نہیں پڑتا، اس شخص نے اپنے حصے کا کام کر دیا، جو کام الطاف حسین نے کیا ہے وہ رہتی دنیا تک اب تمہارے سینے میں پھانس بن کر چھبتا رہے گا۔ تم میڈیا کو ساتھہ ملا کر بے ضمیر صحافیوں کو ساتھہ ملا کر ایم کیو ایم کے خلاف جانبدارانہ پروپگنڈا کر کے سمجھتے ہو مہاجروں کے دلوں کو پھیر دو گے، یہ نا ممکن ہے، جب تک اس ملک میں ایک بھی پنجابی، پٹھان، بلوچ، سندھی، سرائیکی، موجود ہے اس وقت تک مہاجر بھی زندہ رہے گا، تم مجھے مار دو مگر میں اپنی نسلوں کو یہ نظریہ دے کر جاوں گا، مجھے مارنا مسلے کا حل نہیں ہے، مارنا ہے تو میرا نظریہ مارو، وہ عوامل ختم کرو جسکی وجہ سے میری یہ سوچ بنی ہے میرا یہ نظریہ پیدا ہوا ہے۔

روک سکو تو پہلی بارش کی بوندوں کو تم روکو
کچی مٹی تو مہکے گی، ہے مٹی کی مجبوری

یہ بارہویں پاس فوجئیے پاکستان کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی با شعور ایک تہذیب کی امین قوم کو بے وقوف سمجھتے ہیں کہ یہ میڈیا کو ساتھہ ملا کر منفی پروپگنڈا کریں گے اور ہم انکی بات مان لیں گے، ہم اہلِ کراچی ہیں چھانگا مانگا سے آئے ہوئے یا شکار پوری نہیں ہیں، آسمان پہ لکھا نظر آرہا ہے کہ تعصب کیا جارہا ہے یکطرفہ آپریشن کیا جارہا ہے، میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے مساجد کے باہر جہادی تنظیموں کو با قائدہ بینر لگا کر فطرہ لیتے ہوئے، اور یہ وہ جہادی تنظیمیں میں جنہوں نے تمہارے گھروں میں گھس کر تمہاری بہادری کی شلوار ساری دنیا کے سامنے اتاری ہے، جی ایچ کیو پہ حملہ کر کے، مہران بیس پر حملہ کر کے، پشاور میں معصوم بچوں کو شہید کر کے، مگر وہ آج بھی تمہارے اتحادی ہیں، ایم کیو ایم پر پابندی ہے کہ وہ خدمتِ خلق فائنڈیشن کے لئیے نہ چندہ لے سکتے ہیں نہ فطرہ نا کھالیں، جہادیوں کے نام سے ہی انکی شلواریں گیلی ہوجاتی ہیں، بہادری دکھائی جا رہی ہے نہتے مہاجروں پر، ابھی کل کی بات ہے انڈیا نے پسرور پر حملہ کر کے پچاس سے زائد لوگوں کو شہید کر دیا، اور آج ہی کی بات ہے کہ پنجاب کے ڈی جی رینجرز انڈیا مٹھائی لے کر گیا ہے اپنے ہم منصب سے ملنے، یہاں لوگوں کو بے وقوف بناتے ہو کہ دشمن کو منہ توڑ جواب دیں گے، گھر میں گھس کر ماریں گے، ہے ہمت تو پچاس نہیں تو پچیس ہی مار کر دکھا دیتے تو ہم مانتے کہ تم غیرت مند ہو، مگر تم تو الٹا ہمارے زخموں پہ نمک چھڑک رہے ہو مٹھائیاں لے کر جا رہے ہو انکی منتیں کر رہے ہو، ابھی سپریم کورٹ کے جج نے کہا ہے کہ ڈی ایچ اے سوسائٹیز واہگہ بارڈر تک پہنچ گئی ہیں، تو جواب یہ کیسے دیں گے، بارڈر پر جنگ کی صورت میں ڈی ایچ اے سوسائٹیز کی قیمتیں جو گر جائیں گی، سومو نے بلکل ٹھیک کہا کہ چائنہ کٹنگ اور ڈی ایچ اے سوسائٹیز میں فرق صرف وردی کا ہے، بھارت ہمارے لوگ مارے جائے گا اور یہ انہیں مٹھائیاں بھیجے جائیں گے، وردی کو پیسے کی ہلدی لگ گئی ہے، قبضہ جذبہ کھا گیا۔

صحابہ پھٹے کپڑوں میں مفلوک حال بھوکے پیاسے غیر مسلم ریاست کے بادشاہ کے پاس گئے اور کہا کے مسلمان ہوجاو، جزیا دو یا پھر جنگ کے لئیے تیار ہوجاو، بادشاہ نے وزیر سے کہا انہیں پیسہ دے دو، کچھہ سالوں بعد پھر مسلمان اس ہی بادشاہ کے پاس پہنچے مگر اس بار کلف لگے سوٹ بوٹ میں ہشاش بشاش حالت میں تھے، وہ ہی سوال دہرایا، تو بادشاہ نے کہا آجاو اب میدان جنگ میں، اب تم ہمارا کچھہ نہیں بگاڑ سکتے، پہلے تم بھوکے تھے مفلوک حال تھے تب ہمارے لئیے خطرناک تھے، اب تو تم ہمارے جیسے ہی خوشحال ہو اب تم ہمارا کچھہ نہیں بگاڑ سکتے، اب فقظ عادتوں کی ورزش ہے۔ روح شامل نہیں شکایت میں۔
اب تم فوجی نہیں رہے، اب تم بزنس مین بن چکے ہو، ہاوسنگ سوسائٹیز چلانے والے، دلیہ فیکٹریز، سمنٹ فیکٹریز، کھاد فیکٹریز چلانے والے بن چکے ہو، اب تم فوجی نہیں پیسے کے کھوجی بن چکے ہو، ایٹم بم بنالینے سے اگر ملکی جغرافیہ بچ سکتا تو روس کے اتنے ٹکڑے کبھی نہ ہوئے ہوتے، جب روس جیسی سپر پاور نہیں بچی تو باقی کسی ملک کی تو بات ہی کیا کرنی، ملک کو قائم رکھنا اور اسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر دیکھنا چاہتے ہو تو جبر سے نہیں انصاف سے کام لینا ہوگا، ہر پاکستانی کو اسکا جائز حق دینا ہوگا، جبر سے نہ تم پہلے کسی کا کچھہ اکھاڑ سکے ہو نہ اب اکھاڑ سکتے ہو، جغرافیہ سے زیادہ بے وفا شہ کوئی نہیں ہوتی، جب ریاستِ مدینہ نہیں رہی تو ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

This entry was posted in زمرے کے بغیر. Bookmark the permalink.

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s