سالوں دن رات خدمت اور تپسیا کے بعد بلآخر استاد نے شاگرد سے ایک دن کہہ ہی دیا، میں جانتا ہوں تم برسوں سے میری خدمت کیوں کر رہے ہو، تمہیں وہ منتر چاہئیے جسکا ورد کرنے سے جن قابو میں آجاتا ہے پھر اس جن سے تم جو بھی خواہش ظاہر کرو گے وہ پوری کر دے گا، شاگرد نے نظریں جھکا کر کہا جی بلکل ایسا ہی ہے، استاد نے کہا میں تمہیں وہ منتر دے تو دونگا لیکن یہ سوچ لو کہ جس دن تم اس جن کو کوئی کام دینے میں ناکام رہے اس دن وہ جن تمہیں ہی کھا جائے گا، شاگرد نے نتیجے کی پروہ کئے بغیر کہا آپ فکر نہ کریں میں ایسی نوبت آنے ہی نہیں دونگا۔ مجبور ہو کر استاد نے منتر دے دیا، مسلسل ورد کے بعد جن حاضر ہوگیا شاگرد کی جانب سے ہر روز جن کو کوئی نہ کوئی کام دے دیا جاتا، دنیا بھر کے قیمتی نوادرات سے مزین محل تعمیر کروا لیا گیا، باغات، کھیت کھلیان سب آباد کروا لئیے گئے، جدید سے جدید سہولیات حاصل کر لی گئیں بلآخر وہ دن آن پہنچا جب شاگرد کے پاس جن سے کروانے کے لئیے کوئی کام نہ بچا، جن بضد تھا کہ کوئی کام دو ورنہ میں تمہیں کھا جاوں گا، اب شاگرد کی سٹی گم ہوئی دوڑا ہوا استاد کے پاس پہنچا اور مدعا بیان کیا، استاد نے کہا پہلے ہی بتا دیا تھا کہ یہ وقت لازمی آئے گا خیر استاد نے شاگرد کو ایک کتا دیا اور کہا جن سے کہو اسکی دم سیدھی کر دے، شاگرد کتا لے کر جن کے پاس پہنچا اور اسے دم سیدھی کرنے کا کام سونپ دیا، جن نے تمام حربے استعمال کر لئیے مگر کتے کی دم نہ سیدھی ہونی تھی نہ ہوئی، یوں استاد کی مدد سے شاگرد جن کو مصروف رکھنے میں کامیاب ہوگیا اور جن کو کبھی نہ ختم ہونے والا کام مل گیا۔
میں ایک ایسے شخص سے مل چکا ہوں جسے قتل کئے بغیر نیند نہیں آتی تھی، وہ لوگوں سے پوچھتا پھرتا تھا کہ کسی سے دشمنی ہے تو بتاو، برائی کوئی سی بھی ہو صرف پہلی بار کرنے پر بھاری پڑتی ہے اسکے بعد دھیرے دھیرے احساسِ زیاں بھی جاتا رہتا ہے اور پھر وہ برائی اسکے لئیے سگریٹ کا ایک کش لگانے سے بھی زیادہ سہل ہو جاتی ہے، افواجِ پاکستان نے معصوم لوگوں کو جہاد کے نام پر جانور بنانے سے پہلے یہ سوچنا تک گوارہ نہیں کیا ہوگا کہ ہم ان معصوموں کو جس راہ پر ڈال رہے ہیں ہمارا کام نکل جانے کے بعد انکا انجام کیا ہوگا؟؟؟ یقیناؐ انہوں نے سوچا ہوگا کہ کام نکل جانے کے بعد انہیں اتنا پیسہ دے دیا جاے گا کہ یہ با آسانی باقی کی زندگی سکون سے گزار لیں گے، لیکن یہ بارہ جماعت پاس انسانی فطرت کے اصولوں سے واقف ہی نہیں تھے، انسان جب اپنی فطرت مسخ کرنے پر آجائے تو گراوٹ کی اتہا گہرائیاں بھی اسے معمولی سا گڈھا دکھائی دیتی ہیں، آپ نے انکے منہ کو خون لگا دیا اور اب توقع یہ کرتے ہو کہ یہ لوگ ہتھیار پھینک کر چائے کا ہوٹل کھول لیں، لعنت ہی ہے بھئی آپکے ویژن پر۔ آپ نے ڈالر کے منتر سے معصوم لوگوں کو جن میں تبدیل تو کر دیا مگر اب یہ ہی جن آپکے اور آپکی نسلوں کے لئیے ناسور بن چکے ہیں، اب یا تو انہیں کوئی کام دو ورنہ یہ آپکو اور آپکے بچوں کو کھانا شروع کردیں گے، بلآخر نوبت یہ آ ہی گئی کے کام نہ ملنے کی صورت میں ان طالبان نامی جنوں نے آپکو اور آپکے بچوں کو کھانا شروع کر دیا ہے، اس شاگرد کو تو گرو نے گرو دکشنا بخش دی تھی مگر اب تیرا کیا ہوگا کالئیے؟؟؟
آپکے گرو امریکہ نے تو ہری پیلی نیلی ساری جھنڈیاں دکھا دی ہیں آپکو، کچھہ عرصے کے لئیے شام میں دہشتگرد ایکسپورٹ کرنے کا کام ملا تھا مگر اب وہ بھی مندی کا شکار ہوگیا ہے، اب جائیں تو جائیں کہاں؟؟؟
اب گانے بناو، ترانے بناو، غزلیں سناو یا پھیرو راگ، ان جانوروں کو آپ نے کیا لتا بائی کا فین سمجھا ہوا ہے جو عشرے گزرنے کے بعد بھی لتا بائی کا گانا سنتے ہی سب کچھہ بھول کر کوما میں چلے جاتے ہیں؟؟؟ بندیا چمکے گی، چوڑی کھنکے گی، تیری نیند اڑے تے اڑ جائے۔
اب انتظار کیجئیے اپنے آقا کا کہ وہ کسی سے کوئی نیا پنگا لے اور کرائے کے قاتل حاصل کرنے کے لئیے ایک بار پھر ڈآلر کے عوض آپ کی خدمات حاصل کرے اور آپ ان طالبان نامی جانوروں کو پھر سے کوئی کام دینے کے قابل ہو سکیں، انتظار کیجئیے، تب تک یہ طالبان نامی جن آپکو اور آپکے بچوں کو کھاتے رہیں گے، اب یہ کتوں سے بھی بہلنے والے نہیں کیونکہ اب یہ طالبان نامی جن خود کتے کی دم میں تبدیل ہوچکے ہیں، باپ لگا جو انہیں سیدھا کر کے دکھائے۔
-
حالیہ پوسٹیں
زمرے
Blog Networks
اردو بلاگرز
آرکائیوز
- جون 2016
- مئی 2016
- اپریل 2016
- دسمبر 2015
- ستمبر 2015
- اگست 2015
- جنوری 2015
- دسمبر 2014
- نومبر 2014
- ستمبر 2014
- اگست 2014
- جون 2014
- مئی 2014
- اپریل 2014
- مارچ 2014
- فروری 2014
- جنوری 2014
- دسمبر 2013
- نومبر 2013
- ستمبر 2013
- اگست 2013
- جولائی 2013
- جون 2013
- مئی 2013
- اپریل 2013
- مارچ 2013
- اکتوبر 2012
- ستمبر 2012
- اگست 2012
- جولائی 2012
- مئی 2012
- اپریل 2012
- فروری 2012
- جنوری 2012
- نومبر 2011
- اکتوبر 2011
- ستمبر 2011
- اگست 2011
- جولائی 2011
- جون 2011
- مئی 2011
- اپریل 2011
- مارچ 2011
- فروری 2011
- جنوری 2011
- دسمبر 2010
- نومبر 2010
- اکتوبر 2010
- ستمبر 2010
- اگست 2010
- جولائی 2010
- جون 2010
- مئی 2010
دسمبر 2015 پیر منگل بدھ جمعرات جمعہ ہفتہ اتوار 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 میٹا
Blog Stats
- 69,320 hits
-
Join 26 other subscribers
محترم ۔ آپ سے اختلاف کرنے کی جسارت پر پیشگی معافی کی درخواست کے بعد عرض ہے کہ جرنیلوں نے جو خرابیاں کی ہیں وہ ضرور اُجاگر کیجئے لیکن ناکردہ گناہ اُن کے س تھوپنے سے وہ اصل جرم سے بچ جائیں گے ۔
عرض ہے کہ پہلا کرائے کے قاتلوں کا دستہ جو جہاد کے نام پر تیار کیا گیا وہ 2000 افغانیوں پر مشتمل تھا اور اسے 1973ء سے 1975ء کے دوران روس یا امریکہ کی ایماء پر تیار کیا گیا تھا اور قلعہ بالا حصار میں تربیت دی گئی تھی ۔اُس دور میں مُلک میں کسی جرنیل کی حکومت نہیں تھی ۔ اس دستے نے محمد داؤد خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کیلئے 1975ء میں ببرک کارمل کا ساتھ دیا تھا کیونکہ اُنہیں بتایا گیا تھا کہ محمد داؤد خان کیمونسٹ یعنی دہریا ہے حلانکہ ببرک کارمل کیمیونسٹ اور روس کا ایجنٹ تھا اور محمد داؤد خان مسلمان تھا ۔ بہرحال یہ بغاوت ناکام ہوئی تھی مگر اس خانہ جنگی کے نتیجہ میں افغان مہاجرین کا پہلا دستہ 1975ء میں پاکستان آیا تھا
پاکستانی طالبان کی 1994ء ۔ 1995ء میں ترتیب اور تربیت ہوئی جس میں بھانت بھانت کے لوگ شامل کئے گئے تھے ۔ اُس دور میں بھی پاکستان میں کسی جرنیل کی حکومت نہیں تھی ۔ یہ خدمت نصیر اللہ بابر نے سرانجام دی تھی جو اُس دور میں وزیرِ داخلہ تھا ۔
http://www.theajmals.com
اجمل صاحب اتنی سامنے کی بات تو اب پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ پاکستان کی خارجہ اور داخلہ پالیسی کبھی بھی سیاستدانوں کے ہاتھہ میں نہیں رہی، انکی کیا اوقات ہے جو یہ کوئی ایسا فیصلہ کریں جس کو افواج پاکستان سر تسلیم خم قبول کر لیں، اسطرح کے تمام فیصلے ہمیشہ جی ایچ کیو سے ہی ہوتے آئے ہیں اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حکومت سویلین تھی یا فوجی۔ اس وقت بھی کہنے کو تو سویلین حکومت ہی ہے لیکن کیا آپ نہیں جانتے کہ سارے معاملات ہی فوج چلا رہی ہے۔
محترم ۔ آپ کا یہ استدلال ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو سمیت جمہوریت کے تمام علمبردار جرنیلوں کے ہاتھ میں کھلونا تھے ۔ خیال رہے کہ پی پی پی کا دعوٰی ہے کہ اُنہوں نے جمہوریت جرنیلوں سے چھینی ۔ خیر ۔ میری سمکجھ میں یہ نہیں آتا کہ ہم اتنا تردد کیوں کرتے ہیں اور وقت کے ساتھ اربوں روپیہ جمہوریت کے نام پر انتخابات پر خرچ کرتے ہیں ۔ کیوں نہیں خوشی کے ساتھ حکومت فوجی جرنیلوں کے ہاتھ میں دے دیتے ؟
انہیں جب حکومت چاہئیے ہوتی ہے وہ خود لے لیتے ہیں آپ سے یا مجھہ سے پوچھتے ہیں، نواز شریف سے کنپٹی پہ بندوق رکھہ کر استفعیٰ کس نے لیا تھا؟؟؟ بے نظیر کی حکومت کس نے ختم کروائی تھی؟؟؟ حیرت ہے آپ اتنی سامنے کی باتوں سے بے خبر ہیں۔