بوکسنگ میں کھلاڑی اس وقت نہیں ہارتا جب وہ اپنے مخالف کے زوردار پنچ کی تاب نہ لاتے ہوئے گر پڑتا ہے ہارتا کھلاڑی اس وقت ہے جب وہ گر کر دوبارہ اٹھہ نہیں پاتا۔ ٹھیک اس ہی طرح غلطی کرنا یا غلطی ہو جانا کوئی بری بات نہیں ہے غلطی کرنا انسان کے خمیر میں ہے اس ہی لئیے اسکے لئیے ڈکشنری میں ایک اصطلاح بھی رکھی گئی ہے ہیومن ایرر، ہیومن ایرر کے نام پر بسا اوقات بہت بڑے بڑے نقصانات ہونے کے باواجود بھی لوگ اکثر در گزر کر دیتے ہیں، مسلہ غلطی ہوجانے میں نہیں ہے مسلہ غلطی کرنے کے بعد غلطی پر قائم رہنے میں ہے طفل تسلیاں دینے میں ہے الٹے سیدھے جواز گڑھنے میں ہے۔
انسان سے غلطی ہونا عین فطری عمل ہے اس سے لیکن غلطی کا اعتراف نہ کرنا سراسر غیر فطری عمل ہے، غلطی حضرت آدم علیہ سلام سے بھی ہوئی جسکے نتیجے میں انہیں اور اماں حوا کو دنیا میں بھیج دیا گیا لیکن آدم نے فطرت کے عین مطابق فوراً اللہ سے معافی مانگ لی جسے اللہ پاک نے قبول بھی کر لیا۔ غلطی کرنا دراصل سیکھنے کی ابتداء ہوتی ہے کل میری بھانجی شانزے جسکی عمر اس وقت بہ مشکل تین سال ہوگی میں نے اس سے پوچھا “ج“ میں کتنے نقطے ہوتے ہیں؟ اس نے جواب دیا ج میں ایک کتا ہوتا ہے پھر میں نے اس سے پوچھا “ت“ میں کتنے نقطے ہوتے ہیں؟ اس نے جواب دیا ت میں دو کتے ہوتے ہیں، اب اگر میں اسکا دیا ہوا یہ جواب ریکارڈ کر کے اپنے پاس رکھہ لوں اور آج سے بارہ پندرہ سال بعد اسے سناوں تو خود حیران رہ جائے گی، اسے ہی ارتقاء کا عمل کہتے ہیں انسان اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے بار بار غلطی کرتا ہے مگر سیکھتا ہے اور ایک وقت آتا ہے کے مشق اسے کامل کر دیتی ہے۔
انسان واحد مخلوق ہے جو غلطیوں سے سیکھتی ہے اللہ کی کسی مخلوق نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ میں غلطیوں سے سیکھوں گا، یہ شرف صرف اور صرف انسان کو حاصل ہے، شیر بکری کو کھانے کے بعد کبھی نہیں پچھتایا بکری خوبصورت کیاری چر جاتی ہے مگر کبھی نہیں پچھتائی کبھی اس نے کیاری کے مالک سے معافی نہیں مانگی، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مچھر آپکو کاٹنے کے بعد اپنی حرکت پر نادم ہوا ہو اور اگلے چکر میں آپ سے معافی مانگی ہو اگلے چکر میں وہ پھر کسی جگہ کاٹ کے چلا جاتا ہے، چوہیاں قیمتی کپڑے کتر دیتی ہے لیکن کبھی اپنی اس حرکت پر شرمندہ نہیں ہوئی نہ ہی مالک سے معافی مانگی جب کہ سارا دن اس ہی گھر میں دندناتی پھرتی ہے لیکن مجال ہے جو کبھی شرمندگی کا پسینہ اسکے ماتھے پر آیا ہو، کبھی ایسا نہیں ہوا کہ شہد کی مکھی نے آپکو ڈنک مارا ہو اور بعد میں آکر کہا ہو مجھے ایک موقع اور دیجئیے آئندہ ایسی حرکت مجھہ سے سرزد نہیں ہوتی۔
انسان واحد مخلوق ہے جو معافی مانگتی ہے سوری کرتی ہے جسکے ماتھے پر شرمندگی کا پسینہ نمودار ہوتا ہے جسکی آنکھوں سے ندامت کے آنسو بہتے ہیں۔ دنیا میں جتنے بھی قابلِ ذکر لوگ گزرے ہیں جنہوں نے دنیا کو کچھہ ڈلیور کیا ہے ان سب کے اندر معافی مانگنے کی صفت مشترک ہے وہ جب بھی غلطی کرتے ہیں نادم ہو جاتے ہیں فوراً سامنے والے سے معافی مانگ لیتے ہیں انکے بڑا ہونے میں اس عاجزی کا بہت بڑا حصہ ہوتا ہے، اسکے برعکس جتنے ضدی لوگ ہوتے ہیں وہ سرکش ہوتے ہیں وہ اپنی فطرت کو مسخ کر لیتے ہیں اللہ نے انہیں انسان ہی بنایا ہوتا ہے مگر وہ اپنے روئیے کی بنیاد پر اس درجے سے نیچے آنا شروع ہوجاتے ہیں یہ بڑی سے بڑی غلطی کرنے کے بعد بھی معافی کے طلبگار ہونے کے بجائے اپنی غلطی کو جسٹیفائی کرنا شروع کر دیتے ہیں جواز تراشنا شروع کر دیتے ہیں۔ یاد رکھئیے گا جب کوئی انسان اپنی غلطی پہ اڑنا شروع ہو جاتا ہے تو آگے چل کر وہ کرمینل بن جاتا ہے آپ جیل جائیں ایک ایک قیدی سے انٹرویو کر لیں کہیں نہ کہیں وہ آپکو اپنی غلطی پہ اڑا ہوا نظر آئے گا عمومی طور پر مجرم وہ ہی لوگ بنتے ہیں جنہیں اپنی پہلی غلطی پہ پچھتاوا نہیں ہوا ہوتا۔
اسکے برعکس جو بڑا انسان ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ غلطی پر معافی مانگنا ہی انسانیت کا تقاضہ ہے اسکے بغیر میں انسان کو تو کیا اللہ کو بھی راضی نہیں کر پاوں گا علامہ اقبال کا بہت ہی خوبصورت شعر ہے۔ موتی سمجھہ کے شانِ کریمی نے چن لئیے۔ قطرے جو تھے میرے عرقِ انفعال کے۔ جسے بڑا انسان بننا ہوتا ہے وہ جانتا ہے کہ جھکے بغیر سراحی پانی نہیں دے سکتی جھکے بغیر پیڑ پھل نہیں دے سکتا اسلئیے وہ عاجزی کو اپناتا ہے معافی مانگنے میں بھی جلدی کرتا ہے اور معافی دینے میں بھی جلدی کرتا ہے۔ لیکن جو سرکش ہوجاتا اسکے مقدر میں پھر ابو جہل بننا ہی رہ جاتا ہے جو تلوار کے نیچے بھی کہتا ہے کہ میں سردار ہوں میری گردن زرا نیچے سے کاٹنا تاکے جب لوگوں کے درمیان میرا کٹا ہوا سر رکھا جائے تو وہ سب سے اونچا دکھائی دے الگ سے نظر آئے کہ یہ سردار کا سر ہے۔
تاریخ ایسے منفی سوچ کے لوگوں سے بھری پڑی ہے جو اپنی سرکشی کی وجہ سے درندگی کی علامت کے طور پر آج جانے جاتے ہیں عموماً لوگ جب کسی کو اسکی جہالت کی طرف متوجہ کروانا چاہتے ہیں تو کہتے ہیں ابو جہل نہ بنو، غزوہِ احد میں ہندہ کے جس حبشی غلام نے حضرت حمزہ کو شہید کیا اور سینہ چاک کر کے انکا کلیجہ نکال کر ہندہ کو چبانے کے لئیے دیا اس حبشی غلام کا نام وحیشی تھا، سب جانتے ہیں کہ لفظ وحیشی آج ہم درندگی کی علامت کے طور پر بولتے ہیں۔
انسان کی سب سے بڑی غلطی ہی یہ ہے کہ وہ غلطی کو غلطی نہ مانے بلکے اسے غلطی بھی نہیں کہنا چاہئیے اسے بد قسمتی سے تعبیر کیا جانا چاہئیے، یہ اللہ کی بڑی نعمت ہے کہ اللہ کسی کو یہ توفیق دے دیں کہ اسے ادراک ہوجائے میں نے جو غلطی کی ہے اسے معافی سے سدھارا جا سکتا ہے، اگر کسی کو غلطی کرتے ہوئے شرمندگی نہیں ہوتی تو پھر مطلقہ شخص سے معافی مانگتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس نہیں ہونی چاہئیے عم عجیب لوگ ہیں غلطی کرتے ہوئے شرم نہیں آتی لیکن معافی مانگتے ہوئے شرم آتی ہے۔
غلطیاں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک دانستہ اور ایک غیر دانستہ، میں اپنے آپ سے کمٹڈ ہوں کہ روڈ پر گاڑی چلاتے ہوئے اگر کسی نے غلطی سے میری گاڑی کو نقصان پہنچا دیا تو میں نے اسے معاف کر دینا ہے اور ایسا کئی بار ہوا بھی ہے جبکہ اسکے برعکس میں اپنی غیر دانستہ غلطی پر دو بار مخالف فریق کو ہرجانہ بھر چکا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہم زندگی کے چھوٹے چھوٹے اصولوں سے بھی نا واقف ہیں، ہمیں افسوس کرنا نہیں آتا کسی کا نقصان ہوجاتا ہے آگے سے ہم ہنستے ہوئے اس سے تعزیت کرتے ہیں میں ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں جنہیں میت کے سامنے بھی ہنسی آجاتی ہے ایسے لوگوں کو چاہئیے اگر انہیں افسوس نہ کرنا آئے تو ایسے وقت میں وہ اپنے کسی پیارے کو یاد کر کے رو لیا کریں تاکہ سامنے والے کو احساس ہو یہ دل سے میرے دکھہ میں شریک ہے۔ہمیں خوشی منانا نہیں آتی شادی ہو یا کوئی اور خوشی کی تقریب ہو خوشی کے اظہار کے لئیے ہم فائرنگ کرتے ہیں لوگوں کو نقصان پہنچا دیتے ہیں ہماری خوشیاں دوسروں کے لئیے ازیت کا باعث بن جاتی ہیں، اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں نہ خوشی منانے کا طریقہ سکھایا گیا ہے نہ ہی غم منانے کا سلیقہ سکھایا گیا ہے، کتنے ہی لوگ کوئی بڑا فائدہ ملنے کی صورت میں خوشی سے ہی مر جاتے ہیں ایسے ہی کوئی بڑا دکھہ ملنے کی صورت میں ہارٹ اٹیک آجاتا ہے اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمیں ابتداء ہی سے توازن برقرار رکھنا سکھایا ہی نہیں گیا، ایک لفظ ہوتا ہے “سمائی“ اول تو ہمارے معاشرے میں اس لفظ کا استعمال ہی نہیں ہوتا جس لفظ کا استعمال ہی نہ ہوتا ہو اسکی تعریف سے کوئی کیسے واقف ہوسکتا ہے، ہمارے اندر نہ غم کی حالت میں سمائی ہے نہ خوشی کی حالت میں سمائی ہے، غم آجائے تو آپے سے باہر ہوجاتے ہیں سر دیواروں سے مارنے لگتے ہیں بال نوچنے لگتے ہیں کپڑے پھاڑنے لگتے ہیں، حالت خوشی کی ہو تب ہی رویہ مختلف نہیں ہوتا۔
سب سے پہلے تو ہمیں ان چھوٹے چھوٹے معملات میں کیسے پرفارم کرنا ہے یہ سیکھنے کی ضرورت ہے، کسی راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں ہے بس صرف لفظوں کا ہیر پھیر ہے مثال کے طور پر اگر کسی کو بیٹے کی چاہ تھی اور اسکے گھر بیٹی پیدا ہوگئ ہے تو اسلوب یہ ہونا چاہئیے کہ ایسے بندے سے ملتے ہی اسے مسکراتے ہوئے گلے سے لگا لیں اور اسے مبارک باد دیتے ہوئے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث سنائیں، اللہ نے جسکو بیٹی دی ہے وہ بہت خوش نصیب انسان ہے اللہ نے بیٹی کو نعمت قرار دیا ہے۔ اس سے سامنے والے کو حوصلہ ملے گا اور اسے احساس ہوگا کہ بیٹی بھی اتنی ہی قیمتی ہوتی ہے جتنا بیٹا ہوتا ہے۔ ہمیں تنقید کرنا نہیں آتی ہم اس سلیقے سے نا آشنا ہیں کہ کیسے سامنے والے تک اپنی بات پہنچانی ہے کہ ہماری بات بھی اس تک پہنچ جائے اسے اپنی ہتک بھی محسوس نہ ہو۔ اس ہی طرح ہمیں تعریف کرنا بھی نہیں آتی، ہمیں ہاتھہ ملانے کا سلیقہ نہیں آتا کچھہ لوگ ہاتھہ ایسے ملاتے ہیں جیسے ادھار مانگ رہے ہوں، ہمیں گلے ملنا نہیں آتا، ہمیں لوگوں کو انکے اچھے کاموں پر نہیں سراہنا نہیں آتا ہمیں لوگوں کو تحفہ دینا نہیں آتا تحفہ دیتے ہیں تو باتوں باتوں میں کسی نہ کسی بہانے سے اسکی قیمت بھی بتا دیتے ہیں۔ ہمیں کسی کی اصلاح کرنی نہیں آتی نہ ہی اپنے لئیے اصلاح لینا آتا ہے، اس بات سے ایک لطیفہ یاد آگیا، ایک پروفیسر کلاس میں لیکچر دے رہے تھے کہ ایک اسٹوڈنٹ نے ہاتھہ اٹھا دیا پروفیسر نے کہا لیکچر کے بعد سوال جواب کا مرحلہ شروع ہوگا آپ تب سوال کیجئیے گا اسٹوڈنٹ نے کہا سر میری بات تو سن لیں۔۔۔۔۔ پروفیسر صاحب نے پھر ڈانٹ دیا سمجھہ میں نہیں آیا تمہاری صبر کرو لیکچر کے بعد سوال کرنا خاموشی سے بیٹھے رہو یہ کہہ انہوں نے اپنا لیکچر پورا کیا پھر سوال جواب کا مرحلہ شروع ہوا تو پروفیسر نے اس اسٹوڈنٹ سے کہا ہاں اب کہو کیا سوال ہے تمہاراِ؟ وہ اسٹوڈنٹ کھڑا ہوا اور بولا سر میرا کوئی سوال نہیں تھا میں تو آپ کو یہ بتانا چاہ رہا تھا کہ آپکی پینٹ کی زپ کھلی ہوئی ہے۔
ہمیں کسی کو ریسیو کرنے کا سلیقہ نہیں آتا نہ ہی کسی کو رخصت کرنے کا سلیقہ آتا ہے مہذب دنیا میں جب تک بندہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوجاتا لوگ اپنی جگہ کھڑے رہتے ہیں ویو کرتے ہیں یہ چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جن کا خیال رکھہ کہ ہم نہ صرف کسی کے دل میں گھر کر سکتے ہیں بلکے انسان ہونے کا حق بھی ادا کر سکتے ہیں، صرف ایک کام ایسا ہے جسے کرنے سے باقی کے تمام سلیقے آپکے اندر خود بہ خود پیدا ہو جائیں گے اپنے اندر عاجزی پیدا کریں اپنی غلطی ماننے کی جرت پیدا کریں جب طبعیت میں عاجزی کا عنصر حاوی ہوجائے گا تب باقی تمام باطل جذبے خود بہ خود شکست سے دو چار ہوجائیں گے، اس زندگی کی اہمیت کو سمجھیں اللہ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے ہمیں شعور کی دولت سے مالا مال کیا ہے شعور وہ چیز ہے جو اللہ نے کسی اور مخلوق کو عطاء نہیں کی انسانی جسم کا وزن کریں تو چند کلو ہوتا ہے لیکن اسکے شعور کا وزن کرنے بیٹھہ جائیں تو دنیا کا ہر میزان چھوٹا پڑ جائے گا، ہمیں اللہ کی اس نعمت کو پہچاننے کی ضرورت ہے جس دن ہم اپنے آپ کو پہچان گئے اس دن اللہ کو پہچان جائیں گے۔
Bhai tehrir achi hai lekin koshish kare k muqtasir or jamay ho