شکار اور شکاری

بندر دیکھنے میں جتنا پھرتیلا اور ھوشیار نظر آتا ھے پکڑے جانے میں مرغی سے بھی زیادہ آسان شکار ھے ،، یہ اپنی فطرت سے مار کھا جاتا ھے ،،شکاری ایک تنگ منہ کے گھڑے میں اخروٹ ڈال کر خود چھپ جاتے ھیں ،، بندر اتر کر اس گھڑے میں ھاتھ ڈالتے ھیں اور جتنے اخروٹ مٹھی میں آئیں ،مٹھی بھر لیتے ھیں ،، اس کے بعد شکاری سامنے آ جاتے ھیں بندر اگر چاہیں تو جھٹ اخروٹ چھوڑ کر اپنا ھاتھ نکالیں اور بھاگ لیں ،مگر یہیں وہ اپنی فطرت یا جبلت یا بیوقوفی کا شکار بنتے ھیں کہ شور تو بہت کرتے ھیں اور اچھل کود بھی کرتے ھیں مگر کم بخت اخروٹ چھوڑ کر ھاتھ باھر نہیں نکالتے ، اخروٹ سمیت ھاتھ نکالنے کی کوشش کرتے ھیں ،، یوں اخروٹ سمیت پکڑے جاتے ھیں ،،،،

بالکل یہی طریقہ واردات ملحدین بھی اختیار کرتے ھیں ،، وہ چند ایک احادیث کسی پوسٹ میں لگا دیتے ھیں ،جن کو انسانی فطرت قبول نہیں کرتی ،اللہ نے ھر انسان کو ایک فطرت عطا فرمائی ھے جو حشر میں اس کے خلاف بطور حجت پیش کی جائے گی( فطرت اللہ التی فطر الناس علیہا ،لا تبدیل لخلق اللہ ) اللہ کی وہ فطرت جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ھے اور یہ کبھی تبدیل نہیں کی جا سکتی ،،، ھر انسان معروف و منکر سے آگاہ ھے ، جب انسان کی فطرت اس خبر کو مکروہ اور منکر جانتی ھے تو پھر وہ کسی جبر وخوف سے خاموش تو ھو جاتا ھے مگر وہ اس کو کبھی بھی قبول نہیں کرتا ، اس کا سسٹم ھی اس کو Recognize نہیں کرتا ،،، اب وہ دوڑتا ھے علماء کی طرف اور دعا کرتا جاتا ھے کہ یا اللہ کوئی تو عالم یہ کہہ دے کہ یہ حدیث ٹھیک نہیں ، تا کہ نبی ﷺ کے بارے میں جو کراھت میرے دل میں پیدا ھوئی ھے ،اس سے جان چھوٹ جائے ،، اور جب وھاں عالم بھی کہہ دے کہ حدیث تو واقعی صحیح ھے اور رسولﷺ نے واقعی یہ کیا ھے ،، تو ظاھر ھے اس کی کیا کیفیت ھو گی ،، علماء کا کام ان خبروں کی حفاظت کرنا ھے لوگوں کے ایمان کی حفاظت کرنا نہیں ،لوگ اپنے ایمان کے خود ذمہ دار ھیں ،، علماء اس فارمولے پہ رضامند ھیں کہ رسول اور حدیث دونوں کو بے شک چھوڑ دو ،، یعنی حدیث کو ھاتھ سے مت چھوڑو بیشک الحاد کے ھاتھوں پکڑے جاؤ ،، اگر لا تبدیل لخلق اللہ ھے اور کوئی انسان اپنی فطرت کو نہیں چھوڑ سکتا نہ اس کو Uninstall کر سکتا ھے تو پھر وہ اپنی فطرت اور اس حدیث کو ایک دل میں کیسے جمع کر سکتا ھے ،، ؟؟ وہ رسول کو چھوڑۓ یا رسول سے منسوب اس فعل کا انکار کر دے جو اس کا ضمیر نہیں مانتا کہ ایک شریف آدمی کا فعل ھو سکتا ھے ؟ ھمارے نزدیک ایسے کسی فعل کو قبول کرنے والے اللہ کے یہاں خود جوابدھی کریں گے جو نبئ کریم ﷺ یا کسی بھی رسول کے شایانِ شان نہیں ھے ، سوال ھو گا ترے ساتھ ضمیر نہیں تھا ؟ یہی وہ بات ھے جسے اللہ کے رسولﷺ نے کئ صحابہؓ سے بڑی تاکید سے کہا ،ان کے سینے میں اپنی انگلیاں کھبو کر فرمایا کہ جس پہ تیرا دل اور نفس مطمئن ھے وھی نیکی ھے ،جس سے تیرا نفس اور دل کراھت کرے وہ شر ھے ،چاھے فتوی دینے والے اس کے جائز ھونے کا فتوی دیں ،چاھے لوگ تجھے فتوی دیں ( مگر تو اللہ کے یہاں اپنے ضمیر اور دل کی سمجھ پر جوابدہ ھو گا ،لوگوں کے فتوے پہ نہیں ،،

هذا الحديث رواه الإمام أحمد (17545) عن وابصة بن معبد رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال له : (جِئْتَ تَسْأَلُنِي عَنْ الْبِرِّ وَالْإِثْمِ فَقَالَ نَعَمْ فَجَمَعَ أَنَامِلَهُ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِهِنَّ فِي صَدْرِي وَيَقُولُ يَا وَابِصَةُ اسْتَفْتِ قَلْبَكَ وَاسْتَفْتِ نَفْسَكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ الْبِرُّ مَا اطْمَأَنَّتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي النَّفْسِ وَتَرَدَّدَ فِي الصَّدْرِ وَإِنْ أَفْتَاكَ النَّاسُ وَأَفْتَوْكَ) .

وهو من أحاديث الأربعين النووية ، وقد حسنه النووي والمنذري والشوكاني ، وحسنه الألباني لغيره في "صحيح الترغيب” (1734) .

وقد جاءت أحاديث أخرى تدل على ما دل عليه حديث وابصة ، فعن النواس بن سمعان رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قال : (الْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ ، وَالْإِثْمُ مَا حَاكَ فِي صَدْرِكَ ، وَكَرِهْتَ أَنْ يَطَّلِعَ عَلَيْهِ النَّاسُ) رواه مسلم (2553) .

وعن أبي ثعلبة الخشني رضي الله عنه قال : قَالَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (الْبِرُّ مَا سَكَنَتْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَاطْمَأَنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ ، وَالْإِثْمُ مَا لَمْ تَسْكُنْ إِلَيْهِ النَّفْسُ وَلَمْ يَطْمَئِنَّ إِلَيْهِ الْقَلْبُ ، وَإِنْ أَفْتَاكَ الْمُفْتُونَ) رواه أحمد (29/278-279) طبعة مؤسسة الرسالة ، وصححه المحققون بإشراف الشيخ شعيب الأرنؤوط . وقال المنذري : "إسناده جيد” انتهى . "الترغيب والترهيب” (3/23) ، وكذلك قال الحافظ ابن رجب في "جامع العلوم والحكم” (1/251) ، والشيخ الألباني في "صحيح الترغيب” (2/151) .

تعجب کی بات یہ ھے کہ ایسی ایسی خسیس باتیں نبئ کریم ﷺ کی طرف پہلے روایات میں منسوب کر دی گئیں ،پھر وہ تفاسیر میں درج کی گئ یوں قرآن کو بھی Polluted کر دیا گیا اور لوگ کہتے پھرتے ھیں کہ ھم نے یہ قرآن میں پڑھا ھے ،یہ قرآن میں لکھا ھے ،،،
بڑی مشہور تفسیر میں ایک واقعہ لکھتے ھیں کہ ،،عربوں میں بیویوں کا تبادلہ کرنے کا بھی رواج تھا کہ ایک دوسرے سے کچھ عرصے کے لئے بیویوں کا تبادلہ کر لیا کرتے تھے ،، ایک دفعہ فلاں قبیلے کا ایک سردار آیا اور سیدھا حضورﷺ کے حجرے مین گھس آیا ،حضرت عائشہ بیٹھی ھوئی تھیں ،، اس نے ان کو دیکھا ،، حضور ﷺ نے اس سے کہا کہ تو نے اندر آنے کی اجازت کیوں نہیں لی ؟ اس نے کہا کہ واہ واہ ،، میں نے آج تک تو بنی مضر کے کسی شخص سے اس کے گھرمیں جانے وقت اجازت نہیں لی ،، اس پہ اس نے کہا کہ یہ عورت کون ھے ؟ آپ نے فرمایا کہ یہ میری بیوی ھے ،، اس نے کہا کہ آپ اس کا تبادلہ کر لیجئے میرے ساتھ ،میری اس سے زیادہ خوبصورت ھے ،، آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ اسلام میں حرام ھے ،،،،،،،،، یہ حدیث لکھنے کے بعد صاحب فرماتے ھیں کہ اس میں فلاں راوی بالکل ناقابلِ اعتبار ھے ،، ،،،،،،،،،،
خدا کے بندے اس گند کو قرآن میں لکھنے کے بعد لکھتے ھو کہ فلاں راوی ناقابلِ اعتبار ھے ،تو آپ نے اس روایت کو قرآن میں درج کر کے اسے اعزاز کیوں بخشا ؟ اس سانپ کو اپنی تفسیر میں ڈالا ھی کیوں ؟ خود اعتبار کر کے اسے قرآن کے حاشیئے پہ لکھ دیا اور دوسروں کو ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا ،، یہی مفسر لکھتے ھیں کہ ام سلیم خولہ بنت حکیم نے حضور کو اپنا آپ سونپا ھوا تھا ،، یعنی ھبہ کیا ھوا تھا ،، یہ ام سلیم انس بن مالکؓ خادمِ رسول کی ماں تھیں یعنی دونوں ماں بیٹا حضورﷺ کی خدمت کر رھے تھے ، انہی امِ سلیم کے بارے میں آپ کو روایتیں ملیں گی کہ حضورﷺ گرمیوں کے دنوں میں ان کے گھر آرام فرمایا کرتے تھے ،وہ حضورؓ کی جائیں نکالا کرتی تھیں یہانتک کہ حضورﷺ ان کے بستر پہ سو جایا کرتے تھے ، وہ حضورﷺ کا پسینہ جمع کیا کرتی تھیں ،، حضورﷺ کا پیسنہ 9 بیویوں میں سے کسی نے بھی جمع نہیں کیا ،،حضور ﷺ کی جوئیں 9 بیویوں میں سے کسی نے نہیں نکالیں ،،،،، جب کہ حقیقت یہ ھے کہ حضورﷺ نے کسی عورت کا ھبہ قبول نہیں فرمایا ،،

ھر شخص اپنے اندر سے بخوبی واقف ھے ، جب وہ محسوس کرے کہ کوئی حدیث اس کا ایمان بالرسالت کھا رھی ھے ، اور وہ اس حدیث سمیت محمد بن عبداللہ کو محمد رسولﷺ نہیں مان سکتا ،، تو وہ پہلی فرصت میں اس حدیث کو چھوڑ دے ،، اور اپنے ضمیر کی گواھی اور شہادت پہ صاد کرے ، اسے تسلیم کرے کہ میرے رسول ﷺ ایسے نہیں ھو سکتے ،، اور الحاد کے ٹریپ سے نکل آئے ،، لوگوں کے فتوؤں کی بالکل پرواہ نہ کریں ،

سورہ احزاب کے شروع مین لکھتے ھیں کہ فلاں صحابیؓ نے لوگوں سے کہا کہ سورہ احزاب کسی زمانے میں سورہ البقرہ کے برابر تھی ،، اور اب بس اتنی ھے جتنی تم پڑھتے ھو یعنی 73 آیتیں ،، 286 میں سے 73 آیتیں نکال دیجئے باقی 213 آیتیں کون کھا گیا ؟ بات کرو تو فوراً کمنٹ آئے گا کہ جناب انہوں نے ساتھ لکھا ھے کہ یہ حدیث ضعیف ھے ،، یارو اگر ضعیف تھی تو اسے قران میں درج کر کے قوت کی ڈرپ لگائی ھی کیوں گئ ؟ اس عالم کو لازماً اپنی تفسیر کو موٹا کرنا تھا ؟ اگر یہ حدیث قوی بھی ھوتی تب بھی قرآن اس کو رد کرتا ھے ،، انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون ،، اور لا یأتیہ الباطل من بینِ یدیہ ولا من خلفہ ،،،

تبصرہ کریں

شرم نہیں آتی تمہیں ان سب غلاضتوں کے باواجود کہتے ہو بخاری اور مسلم کو قرآن کے برابر مانو۔

چند سوالات !!

چلیں جی بخاری شریف کی حدیث کا تجزیہ کرتے ھیں تا کہ ساتھیوں کو پتہ چلے کہ جب حدیث کی کتاب پڑھی جائے تو اسے کس طرح پڑھنا چاھیئے !!

وروى أيضا رحمه الله (رقم/5637) عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضى الله عنه قَالَ :
(1- ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ ،) (2-فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا ،)( 3- فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا ، فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ ،) فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَاءَهَا ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مُنَكِّسَةٌ رَأْسَهَا ، فَلَمَّا كَلَّمَهَا النَّبِيُ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ. فَقَالَ : قَدْ أَعَذْتُكِ مِنِّى . فَقَالُوا لَهَا : أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ . قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ لِيَخْطُبَكِ . قَالَتْ : كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ،،

1 – نبی کریم ﷺ کی مجلس میں عرب کی ایک عورت کا تذکرہ کیا گیا ،،( کیا نبی ﷺ کی مجلس ایسی ھی ھوتی تھی جہاں ھوٹل کی طرح لوگوں کی بہو بیٹیوں کے حسن و جمال کے چرچے ھوتے تھے ؟ یا صحابہؓ نبئ پاک کے مزاج آشنا تھے کہ کس موضوع پر بات کی جائے تو آپ کھِل اٹھتے ھیں ؟

2- . رسول اللہ ﷺ نے ابا اسید الساعدی کو حکم دیا کہ اس کی طرف بندہ بھیجو ،،، گویا صحابہؓ نے جو سوچا تھا عین ان کی توقع کے مطابق ردِ عمل ھوا ،، حکم دیا گیا کہ بندہ بھیج کر اسے بلاؤ ،، سوال یہ ھے کہ کیا نبی نکاح اسی طرح کیا کرتے ھیں کہ نہ اس کے باپ سے پوچھا نہ قبیلے سے رابطہ ،بس لڑکی کو اٹھا لاؤ ؟
وروى البخاري أيضا في صحيحه (5255) عَنْ أَبِى أُسَيْدٍ رضى الله عنه قَالَ :
( خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى انْطَلَقْنَا إِلَى حَائِطٍ يُقَالُ لَهُ الشَّوْطُ ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى حَائِطَيْنِ ، فَجَلَسْنَا بَيْنَهُمَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : اجْلِسُوا هَا هُنَا . وَدَخَلَ وَقَدْ أُتِىَ بِالْجَوْنِيَّةِ ، فَأُنْزِلَتْ فِي بَيْتٍ فِي نَخْلٍ فِي بَيْتٍ أُمَيْمَةُ بِنْتُ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِيلَ ، وَمَعَهَا دَايَتُهَا حَاضِنَةٌ لَهَا ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي .
قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )

ابی اسیدؓ فرماتے ھیں کہ ھم رسول اللہ ﷺ کے ساتھ چلے ، اور ایک ایسی جگہ پہنچے جسے شوط کہتے تھے اور اس کی دو دیواروں کے درمیان پہنچ کر رسول اللہ ﷺ نے ھمیں حکم دیا کہ تم یہیں بیٹھو اور خود جونیہ کے یہاں دخل ھو گئے وہ لائی گئ تھی اور( 3 -” امیمہ بنت النعمان بن شراحیل ") کے کھجوروں کے باغ میں اتاری گئ ( واضح رھے اس حدیث میں یہ خاتون میزبان ھے جس کے باغ میں جونیہ عورت اتاری گئ ھے ،،مگر بخاری ھی کی اگلی روایت بتاتی ھے کہ یہ امیمہ بنت النعمان خود دلہن تھی ،گویا اب جونیہ ایک مجھول چیز بن گئ ھے اور اس کی میزبان امیمہ خود بیوی بن گئ ھے مگر اس پر بھی ایک نیا سیاپا کھڑا ھو گیا ھے ،کہ یہ امیمہ بنت النعمان مدینے کی رھنے والی انصاری خاتون تھی ، حضور ﷺ کو دس سال ھو گئے تھے مدینے میں اور آپ نے 20 عیدیں پڑھائی تھیں جن میں عورتوں کو بھی جمع کیا جاتا تھا اور رسول اللہ عورتوں سے خصوصی خطاب کیا کرتے تھے ، کیا وہ انصاری عورت نبیﷺ کو پہچانتی نہیں تھی کہ اس نے اعوذ باللہ کہہ کر نبی ﷺ سے اللہ کی پناہ مانگ لی یا اس کو یہ تک نہیں بتایا گیا تھا کہ اس کی شادی کس ھستی سے کی جا رھی ھے ؟ نیز اس کا یہ کہنا کہ کوئی ملکہ ایک عام شخص کے سپرد اپنا آپ کیسے کر سکتی ھے یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ کہیں دور دراز سے بلوائی گئ تھی اور سارے رستے اسے کسی نے یہ تک بتانے کی تکیلف گوارہ نہیں کی کہ اسے کیا سعادت حاصل ھونے والی ھے ؟ ،جیسا کہ کہانی گھڑنے والوں نے معذرت پیش کی ھے کہ وہ حضورﷺ کو جانتی نہیں تھی ؟ اور اگر اسی امیمہ بنت النعمان الانصاریہ سے نکاح ھوا تھا تو اس دن تو انصار مین عید کا دن ھونا چاھیئے تھا کہ نبی کے ساتھ ان کو رشتہ داری کا شرف حاصل ھو رھا تھا ،، پھر یہ لاوارثوں کی طرح عورت کو اٹھوا کر کسی باغ مین ملنے کا کیا مطلب ؟ کیا امیمہ کے باپ کے گھر سے ڈولی نہیں اٹھ سکتی تھی ؟

وروى أيضا قال : أخبرنا هشام بن محمد ، حدثني ابن الغسيل ، عن حمزة بن أبي أسيد الساعدي ، عن أبيه – وكان بدريا – قال : ( تزوج رسول الله أسماء بنت النعمان الجونية )، فأرسلني فجئت بها ، فقالت حفصة لعائشة أو عائشة لحفصة : اخضبيها أنت وأنا أمشطها ، ففعلن ، ثم قالت لها إحداهما : إن النبي، صلى الله عليه وسلم يعجبه من المرأة إذا دخلت عليه أن تقول أعوذ بالله منك . فلما دخلت عليه وأغلق الباب وأرخى الستر مد يده إليها فقالت : أعوذ بالله منك

راوی وھی ھیں مگر اب قصہ نیا ٹوسٹ لے رھا ھے ،اب عورت کا نام اسماء بنت النعمان ھو گیا ھے ،، اس عورت کے سات نام لئے گئے ھیں سب سے مشہور امیمہ بن النعمان ھے ،، ابی ایسد الساعدیؓ فرماتے ھیں کہ حضورﷺ نے اسماء بنت النعمان سے شادی کی تو مجھے لینے بھیجا میں لے کر آیا تو حفصہؓ نے عائشہؓ سے کہا یا عائشہؓ نے حضرت حفصہؓ سے کہا کہ تو اس کو خضاب لگا اور میں اس کو کنگھی کرتی ھوں ،،،،،،،،، تو دونوں نے اپنا اپنا کام کیا پھر ان دونوں میں سے ایک نے اس سے کہا کہ اللہ کے نبی جب کسی عورت کی خلوت میں داخل ھوں تو آپ کو یہ بہت اچھا لگتا ھے کہ وہ عورت کہے کہ اعوذ باللہ منک ،،،،،،، تو جب رسول اللہ ﷺ اس عورت کی خلوت میں گئے اور پردہ کھینچا تو اس نے کہا کہ آپ سے اللہ کی پناہ چاھتی ھوں ،، ،گویا اس مدنی عورت کو عربی تک نہیں آتی تھی کہ وہ یہ سمجھ سکتی کہ جب کسی سے اللہ کی پناہ چاھی جاتی ھے تو اس کا کیا مطلب ھوتا ھے ،،

اگلا سوال علماء سے ھے کہ اس حدیث سے خانگی زندگی کا کونسا اسوہ اخذ کیا گیا ھے ؟

کیا بیوی اگر شوھر کو اللہ کا واسطہ دے کر حقِ زوجیت سے روکے تو شوھر کو اسے طلاق دے دینی چاھیئے ؟

کیا شوھر پر لازم ھے کہ وہ اس کو اپنی ذات سے اللہ کی پناہ دیتے ھوئے فارغ کر دے ؟

کیا نبئ کریم ﷺ کو سورہ التحریم میں شھد کی حرمت والے واقعے سے سبق نہیں مل چکا تھا کہ آپ کا عمل چونکہ لوگوں کے لئے ایک قانون کی حیثیت رکھتا ھے لہذا آپ کوئی ایسا عمل مت کریں جسے بعد والے قانون سمجھیں جبکہ اللہ کے نزدیک وہ شریعت کا قانون نہ ھو ؟

يرويها ابن سعد في الطبقات (8/144) بسنده عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى قال: (الجونية استعاذت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وقيل لها : هو أحظى لك عنده . ولم تستعذ منه امرأة غيرها ، وإنما خدعت لما رؤي من جمالها وهيئتها ، ولقد ذكر لرسول الله من حملها على ما قالت لرسول الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنهن صواحب يوسف ).
ابن سعد اپنے طبقات میں لکھتے ھیں کہ عورت کا حسن و جمال دیکھ کر اسے دھوکا دے کر تعوذ کہلوایا گیا تھا ،، یعنی حضرت حفصہؓ اور حضرت عائشہؓ نے دھوکے کے ساتھ وہ جملہ کہلوایا تھا تا کہ اسے طلاق ھو جائے ، جب رسول اللہ ﷺ کو بتایا گیا کہ اس عورت کس نے فریب دے کر یہ جملہ کہلوایا تھا تو ،، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ” وہ سورہ یوسف والی ( فلما سمعت بمکرھن ) عورتیں ھیں ،،

وذكر آخرون من أهل العلم أن سبب استعاذتها هو تكبرها ، حيث كانت جميلة وفي بيت من بيوت ملوك العرب ، وكانت ترغب عن الزواج بمن ليس بِمَلِك ، وهذا يؤيده ما جاء في الرواية المذكورة أعلاه ، وفيها : ( فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي . قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )

دیگر اھل علم کے نزدیک اس عورت کے تکبر نے اسے اس تعوذ پر آمادہ کیا کیونکہ وہ اس شادی پر راضی نہیں تھی اور عرب کے بادشاھوں میں سے ایک بادشاہ کے گھر پلی بڑھی تھی لہذا کسی بادشاہ کے رشتے کی ھی امید لگائے بیٹھی تھی ،،اور یہ بات اس کے ان جملوں سے ثابت ھوتی ھے کہ جس میں روایت کیا گیا ھے کہ ” جب اس پر رسول ﷺ داخل ھوئے تو اسے کہا کہ مجھے اپنا آپ سونپ دو ،، اس پر اس نے پلٹ کر جواب دیا کہ بھلا کوئی ملکہ کسی عام آدمی کو اپنا آپ سونپ سکتی ھے ؟ اس پر بھی رسول اللہ ﷺ نے کوشش کی کی اس کو تسلی دی جائے اور اپنا ھاتھ اس کی طرف بڑھایا جس پر اس نے کہا کہ میں تم سے اللہ کی پناہ چاھتی ھوں ،جس پر آپ نے فرمایا کہ تو نے اس کی پناہ مانگی ھے جو واقعی پناہ دیتا ھے ، اور باھر نکل کر فرمایا کہ ابا اسید اسے کپڑوں کا جوڑا دے کر گھر والوں کے پاس پہنچا دو ،،،

اب سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ حجرے میں تو نبئ کریم ﷺ اور وہ عورت اکیلے تھے ،، کیمرے اور خفیہ مائیک کا زمانہ بھی نہیں تھا ،، کمرے کی باتیں باھر کیسے آئیں ؟ نبئ کریم ﷺ نے تو عجلہ عروسی کی باتیں شیئر کرنے سے خود منع فرمایا ھے ،، اور راوی یہ کہہ بھی نہیں رھے کہ ان کو رسول اللہ ﷺ نے بتایا ھے ،تو پھر یہ تعوذ کس نے سنا تھا ،، راوی سے ھی کوئی اللہ کا بندہ پلٹ کر پوچھ لیتا ،مگر چونکہ راوی صحابی ھیں اور ھمارے محدثین کے نزدیک صحابی سے پلٹ کر سوال بھی نہیں کیا جا سکتا ،،لہذا اسٹوری بغیر وضاحت چل پڑی اور قیامت تک چلتی رھے گی ،،مگر ھمیں اللہ پاک یہ حکم دیتا ھے کہ جب تم کوئی خبر سنو تو تحقیق کر لیا کرو ،،یہ نبی ﷺ کی عزت اور بے عزتی کا معاملہ تھا لہذا ابا اسید سے یہ پوچھنا بہت ضروری تھا کہ اندر کی باتیں باھر کیسے نکلیں ؟ نیز نبی پاک سے منسوب کسی بھی بات کے بارے میں حضرت عمرؓ شدید رد عمل دیا کرتے تھے اور اس بندے کو کہتے تھے کہ اگر تم دوسرا گواہ نہ لے کر آئے تو واللہ میں تمہیں عبرت بنا دونگا ،،لہذا لوگ کم ھی کوئی حدیث روایت کرتے تھے کہ شاید دوسرا کوئی گواہ نہ ملے ،، حدیثوں کا ڈیم عمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد ٹوٹ گیا ،،

اب اگلا سوال یہ ھے کہ رسول اللہ ﷺ نے اس توھین کو محسوس کیا یا نہیں کیا ؟ تو ابن سعد کی روایت کے مطابق آپ جونیہ کے پاس سے نکلے تو غصے کی حالت میں تھے ،،
ابن سعد طبقات میں لکہتے ہیں

جب اسماء بنت نعمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ہوں میں آپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون اس نے کہا میری بہن قتیلہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آگے بڑھے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو یہ دونوں بہن بہائی مرتد ہوگئے۔ پھر قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اور عکرمہ بن ابی جھل نے اس سے نکاح کیا۔

گویا آسمان سے گرا کھجور مین اٹکا ،، غصے میں باھر نکلے تو اشعث بن قیس نے ٹریپ کر لیا کہ فکر مت کریں میری بہن حسب و نسب و جاہ وجمال میں اس سے بڑھ کر ھے ،، اس پر آپ نے جھٹ فرمایا ” میں نے اس سے نکاح کر لیا ،، وہ بہن کو لینے گئے ابھی رستے میں تھے کہ پیچھے حضورﷺ کا وصال ھو گیا اور وہ دونوں بدبخت مرتد ھوگئے ،، یہ ایک نیا کلنک کا ٹیکہ لگ گیا اگرچہ رخصتی نہیں ھوئی تھی مگر لڑکی کے ولی کے ساتھ ایجاب و قبول ھونے کے بعد وہ قانونی ام المومنین بن گئ تھی اگرچہ دخول نہیں ھوا تھا ،،،،،،،،،،،،،،،، اگر حضورﷺ کی وراثت تقسیم ھوتی تو وہ لازم اس مین حصہ پاتی ،اگرچہ ارتداد کی وجہ سے محروم رھتی ،،،

بڑا سوال یہ ھے کہ جب نبئ کریم ﷺ جوان رعنا اور 25 سال کے کڑیل جوان تھے ،تب تو آپ میں جنسِ مخالف کے لئے یہ بےتابیاں ھر گز نہیں پائی جاتی تھیں ،، اور بڑے صبر اور شکر کے ساتھ اپنے سے عمر میں بڑی عورت کے ساتھ نہایت محبت کے ساتھ گزارا کیا ،، اور ان کی زندگی میں دوسری شادی کا نام تک نہیں لیا ،جبکہ اب تو زندہ سلامت 9 بیویاں گھر میں ھین جو بڑے بڑے سرداروں کی بیٹیاں ھیں ،مگر حضور ﷺ حسن و جمال کے چرچے سن کر گلیوں اور چوکوں ،کھیتوں اور کھلیانوں میں نکاح کرتے پھر رھے ھیں جبکہ جوانی کی بجائے جوڑوں کے درد نے گھیر رکھا ھے ، نماز میں بھی گھسٹ کر شریک ھوتے ھیں ،سجدے میں بھی ھاتھ ٹیک کر بیٹھتے ھیں ،قعدے میں بھی دونوں پاؤں پہ نہیں بیٹھا جاتا ،،

تبصرہ کریں

نبئ کریم ﷺ کی عجیب و غریب شادیاں !

نبئ کریم ﷺ کی عجیب و غریب شادیاں !
ھماری احادیث کی کتابوں میں انتہائی قابلِ اعتراض مواد وافر مقدار میں موجود ھے جو نبئ کریم ﷺ کی ذاتِ اقدس کو نشانہ بناتا ھے ،، خاص طور پہ نبئ کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی کو نشانہ بنایا گیا ھے تعجب کی بات یہ ھے کہ صحابہ رضوان اللہ علیھم اجمعین میں سے کسی کی شادیاں بھی اس قدر گھٹیا انداز میں بیان نہیں کی گئیں ،، جس قدر خیر البشر ﷺ ایسی ھستی کی بیان کی گئ ھیں کہ جن کی نفاست اور اخلاق کی قسمیں اللہ کھاتا ھے ،، آج تک جس نے بھی گستاخانہ کتاب لکھی یا فلم بنائی اس نے سارا مواد ٹھیک انہیں کتابوں سے حوالے کے ساتھ لیا اور بیان کیا ، یہی کام آج ملحدین کر رھے ھیں ،، ایسی باتیں ھیں کہ جن سے شاید دس لاکھ میں سے کوئی ایک آدمی واقف ھو گا ،، جنہوں نے کتاب لکھی یا فلم بنائی وہ تو کافر ٹھہرے اور قتل کر دیئے گئے ،جنہوں نے یہ واقعات بیان کیئے اور روایت کی کتابوں میں محفوظ کیئے وہ سارے رحمۃ اللہ علیھم اجمعین ٹھہرے ،،
سب سے پہلے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ جناب نبئ کریم ﷺ کے نکاح کو لیتے ھیں ھم نے جو سنا تھا اور اسلامیات کی کتابوں میں پڑھا تھا وہ کچھ یوں تھا کہ حضرت خدیجہؓ نبئ کریم ﷺ کی دیانت اور سوجھ بُوجھ سے بہت متاثر تھیں اور انہوں نے اپنی ایک سہیلی کو درمیان میں ڈالا جس نے نبئ کریم ﷺ سے موافقت حاصل کی اور پھر حضرت خدیجہ کے چچا کی رضامندی کے ساتھ یہ نکاح ھوا ،جناب رسالتمآب ﷺ کی جانب سے بھی چچا ابوطالب شریک ھوئے جنہوں نے خطبہ نکاح پڑھا ،،
مگر یہاں کہانی کچھ اور لکھی گئ ھے ،،،،،،،،،، یہ مسندِ احمد کی روایت ھے ،، اس میں عبداللہ بن عباس راوی ھیں جو ٹھیک اس سال پیدا ھوئے جس سال حضرت خدیجہؓ کا انتقال ھوا ،، یعنی ھجرت سے تین سال پہلے – درایت نام کا ایک اصول بیان تو کیا جاتا ھے مگر شاید یہ پاکستانی آئین کی دفعہ 6 کی طرح بس لکھ کر ھی رکھ لیا گیا کسی نے اس کو استعمال کرنے کی کوشش ھی نہیں کی ،، ،،راوی اپنی پیدائش سے 25 سال پہلے کے واقعات بیان کر رھا ھے اور یہ بتاتا بھی نہیں کہ اس کو یہ بات کس نے بتائی ھے ؟
روایت میں کہا یہ گیا ھے کہ حضرت خدیجہؓ کے والد اس شادی پہ راضی نہیں تھے،، لہذا حضرت خدیجہ نے ان کو کھانے کے ساتھ شراب پلا دی اور جب وہ نشے میں تھے تو ان سے رضامندی لے لی اور ان پر شادی کی رسم کا حلہ ڈال دیا ،،جب خویلد کو ھوش آیا تو اس نے پوچھا کہ یہ میرے اوپر حلہ کس بات کا ڈالا گیا ھے ؟ خدیجہؓ نے کہا کہ آپ نے میری شادی محمدﷺ کے ساتھ طے کر دی ھے ،، اس پہ خویلد نے کہا کہ میں اور ابوطالب کے یتیم کو بیٹی دے دوں یہ تو ھو ھی نہیں سکتا ، اس پہ خدیجہؓ نے اسے ڈرایا کہ اگر تم نے کہا کہ تم نے نشے میں یہ رضامندی دی تھی تو قوم میں تمہاری ناک کٹ جائے گی کہ خویلد نشہ کرتا ھے ،،،، جس پر وہ خاموش ھو گئے ،،،
2846 حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِى عَمَّارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا يَحْسَبُ حَمَّادٌ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ خَدِيجَةَ وَكَانَ أَبُوهَا يَرْغَبُ أَنْ يُزَوِّجَهُ فَصَنَعَتْ طَعَامًا وَشَرَابًا فَدَعَتْ أَبَاهَا وَزُمَرًا مِنْ قُرَيْشٍ فَطَعِمُوا وَشَرِبُوا حَتَّى ثَمِلُوا فَقَالَتْ خَدِيجَةُ لِأَبِيهَا إِنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ يَخْطُبُنِي فَزَوِّجْنِي إِيَّاهُ فَزَوَّجَهَا إِيَّاهُ فَخَلَعَتْهُ وَأَلْبَسَتْهُ حُلَّةً وَكَذَلِكَ كَانُوا يَفْعَلُونَ بِالْآبَاءِ فَلَمَّا سُرِّيَ عَنْهُ سُكْرُهُ نَظَرَ فَإِذَا هُوَ مُخَلَّقٌ وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ فَقَالَ مَا شَأْنِي مَا هَذَا قَالَتْ زَوَّجْتَنِي مُحَمَّدَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ أَنَا أُزَوِّجُ يَتِيمَ أَبِي طَالِبٍ لَا لَعَمْرِي فَقَالَتْ خَدِيجَةُ أَمَا تَسْتَحِي تُرِيدُ أَنْ تُسَفِّهَ نَفْسَكَ عِنْدَ قُرَيْشٍ تُخْبِرُ النَّاسَ أَنَّكَ كُنْتَ سَكْرَانَ فَلَمْ تَزَلْ بِهِ حَتَّى رَضِيَ حَدَّثَنَا عَفَّانُ حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ أَخْبَرَنَا عَمَّارُ بْنُ أَبِي عَمَّارٍ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ فِيمَا يَحْسَبُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرَ خَدِيجَةَ بِنْتَ خُوَيْلِدٍ فَذَكَرَ مَعْنَاهُ”
پہلی بات یہ کہ خویلد تاریخی طور پہ اس شادی سے پہلے فوت ھو چکے تھے ،لہذا ان سے منسوب یہ سارا واقعہ جھوٹ کا پلندہ ھے ، اور کتاب میں شامل کرنے سے پہلے صاحبِ مسند کو اس کی تحقیق کر لینی چاھیئے تھی کیونکہ بات نبی ﷺ کے نکاح اور ان کی آنے والی نسل کی ھے ، اور اگر اتنا وقت نہیں تھا تو کس نے منت کی تھی کہ مسند لکھنے بیٹھ جایئے ،، مسند احمد کی روایات اس قسم کی اور بھی بہت ساری متنازع کہانیون سے بھری پڑی ھے ،،
دوسری بات یہ کہ عرب شراب شوق سے پیتے تھے اور اس کو ایک اچھی اور قابلِ فخر بات جانتے تھے لہذا شرم دلانے والی اس میں کیا بات تھی ؟ عربوں کو سب سے زیادہ تعجب شراب کی پابندی پر تھا کہ یہ بھی قابلِ ممانعت چیز ھے ،، یسئلونک عن الخمر ،،،
اب آگے چلیئے ،،،
ھم یہ بات جانتے ھیں کہ نبئ کریم ﷺ کی صرف پہلی شادی ھی ضرورت کی شادی تھی ،، اور آپ نے حضرت خدیجہؓ کی وفات تک کوئی دوسری شادی نہیں کی اگرچہ وہ عین شباب کا دور تھا ،، باقی ساری شادیاں مجبوری کی شادیاں تھیں ،حضرت سودہؓ سے شادی بچیوں کی پرورش کی مجبوری کی وجہ سے تھی ،، اس دوران حضرت ابوبکر صدیقؓ نے مطعم ابن عدی کو چونکہ جواب دے دیا تھا لہذا حضرت عائشہ صدیقہؓ سے آپ کی شادی اخلاقی مجبوری تھی کیونکہ آپ کی نیت سے ھی مطعم کے بیٹے جبیر ابن مطعم سے رشتے توڑا گیا تھا ،، اس کے بعد عورتوں کی مجبوریوں کی ایک داستان ھے کہ کس طرح وہ اسلام کی خاطر سیسہ پلائی دیوار کی مانند کھڑی ھوئیں مگر کسی کا شوھر اسے چھوڑ کر بے دین ھو گیا تو کسی کا شھید ھو گیا ،، ان تمام واقعات مین انسان کا اپنا ضمیر یہ تقاضا کرتا ھے کہ اس جگہ اللہ کے رسول ﷺ کو آگے بڑھ کر ان کو سہارا دینا چاھیئے ،، اور نبئ کریم ﷺ نے بالکل ویسا ھی قدم اٹھایا ،، حضرت صفیہؓ جس طرح لُٹ پٹ کر آئی تھیں یہ ضروری تھا کہ شاھی اور نبوی خاندان کی عورت کو ویسا ھی مقام دیا جائے جس کی وہ مستحق ھیں ،،،، ان 9 شادیوں میں سے ھر ایک کا ایک معقول سبب موجود ھے ،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،،
مگر اپنے وصال سے دو ماہ پہلے جبکہ نبئ کریم ازدواجی ذمہ داریوں سے عہدہ برآء ھونے میں دقت محسوس فرما رھے تھے اور اسی عذر کی وجہ سے آپ ﷺ ام المومنین سودہ بنت زمعہؓ کو طلاق دے دی تھی کہ میں تمہارے حقوق ادا نہیں کر سکتا ،،، اور ان کی طرف سے حقوق معاف کر دیئے جانے پر رجوع کر لیا تھا ،، آپ پر دو ایسی مضحکہ خیز شادیوں کا الزام دھر دیا گیا کہ جس کی کوئی جسٹیفیکیشن کوئی ذی شعور پیش نہیں کر سکتا ،، اگر حضور ﷺ نے حضرت سودہؓ سے سچ بولا تھا اور یقیناً سچ بولا تھا کہ آپﷺ اب حقوقِ زوجیت کی ادائیگی میں دشواری محسوس کر رھے تھے تو پھر ان ایمرجنیسی پلس شادیوں کی تُک نہیں بنتی ،،، اور نہ وہ طریقہ ایک حاکم اور نبی کے شایانِ شان ھے کہ جس طرح کھیتون کھلیانوں میں شادیاں کی گئیں ،،
1- آپ نے سنا بھی ھو گا اور پڑھا بھی ھو گا کہ اللہ کے رسول ﷺ کا ارشاد ھے کہ عورت کے ساتھ شادی تین وجوھات کی وجہ سے کی جاتی ھے ،اس کے جمال کی وجہ سے یا مال کی وجہ سے یا دین کی وجہ سے ،، تم دین کو ترجیح دو ،،، مگر ان دونوں عیجب و غریب شادیوں میں دین دور دور تک نظر نہیں آتا ،بس حسن و جمال ھی کا دورہ دورہ ھے ،،،، پہلی عورت کو تو یہ ھی پتہ نہیں کہ اس کی شادی جس سے کی گئ ھے وہ اللہ کے رسول ھیں اور نہ اسے یہ پتہ ھے کہ اللہ کا رسول کون ھوتا ھے اور اس کا کیا مقام ھے ،، وہ آپ کو عام آدمی یعنی گرا پڑا سمجھتی ھے اگر سوقہ کا ترجمہ بازاری مرد نہ بھی کیا جائے تب بھی ،، حضور ﷺ کھیتوں کھلیانوں اور درختوں مین سے رستہ بناتے ھوئے کسی دوسرے کے گھر میں وظیفہ زوجیت ادا کرنے جاتے ھیں ( اور ایسا پہلی نو شادیوں میں اس طرح نہیں ھوا کہ نبی ﷺ نے چھپ کر کسی غیر کے گھر بیوی سے ملاقات کی ھو ) آپ نے جاتے ھی نہ سلام نہ کلام سیدھا عورت سے کہا کہ اپنا آپ میرے سپرد کر دے ،،، اس نے کہا کہ بھلا کوئی ملکہ اپنا آپ کسی گرے پڑے کو سونپتی ھے ،، آپ ﷺ نے تب بھی اس کو نہیں بولا کہ مین تیرا شوھر ھوں ،میں رسول اللہ ھوں ،اور تو نکاح کر کے مجھے اپنا آپ سونپنے کا معائدہ کر چکی ھے ،، اور یہ بات کہتے بھی کیسے کیونکہ نکاح تو ثابت ھی نہیں ،،کون اس کا ولی تھا ،کس نے نکاح کا خطبہ پڑھا تھا ،نبئ کریم ﷺ کی طرف سے کس وھاں قبول کیا تھا ،، حدیث شروع ھی یہاں سے ھوتی ھے کہ نبی ﷺ کے دربار میں عرب کی ایک عورت کے حسن و جمال کا چرچا کیا گیا تو آپ نے ابا اسید الساعدیؓ سے فرمایا کہ اس کی طرف بندہ بھیج کر بلوا لو ،،،،،،،،،،،،،، کیا نکاح اس طرح ھوتے ھیں ؟ جس کی بیٹی کی خوبصورتی کا قصہ سنا کہا اٹھا لے آؤ ؟ اور چرچا حسن کا ھوا ھے ،اس کی نماز ،روزے اور تقوے کا نہیں ،، آگے چل کر آپ دیکھیں گے کہ وہ تو رسولﷺ سے واقف تک نہیں تھا اور حضور ﷺ زبردستی شوھر بن رھے تھے جس کو اس نے مسترد کر دیا ،، جو ڈائیلاگ اس پہ ھوئے وہ آگے بیان کرتا ھوں مگر پہلے اس پر بھی غور فرما لیجئے کہ یہ ڈائیلاگ باھر کیسے نکلے ؟ کوئی شخص اپنی بیوی سے اتنی اونچی آواز میں جنسی گفتگو نہین کرتا کہ پورا محلہ سنے ،، باھر باغ میں کھیتوں مین چھپے بندے بھی سن رھے ھیں ،، بلکہ آنکھوں دیکھا حال بھی بیان کر رھے ھیں کہ اس کے سخت جملہ کہہ دینے اور حضور ﷺ کو ” سوقہ ” کہہ دینے کے باوجود آپ نے اپنا ھاتھ اس پر رکھ کر اسے مائل کرنے کی کوشش کی جس پر اس نے گھبرا کر آپ ﷺ سے اللہ کی پناہ مانگ لی ،، اللہ کی اس پناہ سے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ رسول اللہ ﷺ پر ایمان بھی رکھتی تھی کیونکہ عرب سارے اللہ کو مانتے تھے ،، پھر ستم بالائے ستم یہ کہ کہہ دیا گیا کہ جناب وہ تو اس بیچاری سیدھی سادی عورت کو حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ نے جھوٹی پٹی پڑھائی تھی کہ اللہ کے رسول ﷺ کو اعوذ باللہ منک ” بہت پسند ھے لہذا جب وہ تیرے قریب آئیں تو تُو جھٹ سے اعوذ باللہ منک کہہ دینا ،، تضاد کا نمونہ دیکھیئے کہ جب وہ حضور ﷺ کو سوقہ یا گھٹیا یا بازاری یا گرا پڑا آدمی کہہ رھی ھے تب فوراً کہہ دیا جاتا ھے کہ بےچاری کو پتہ نہیں تھا کہ یہ رسول اللہ ﷺ ھیں ،اور پھر ساتھ یہ جھوٹ بھی بولتے ھیں کہ ام المومنین حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ اس کو پٹی پڑھا آئی تھیں کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ کلمہ بہت پسند ھے ،گویا وہ عورت عرب نہیں تھی اور تعوذ کے معنی بھی اسے نہیں آتے تھے کہ کسی ناپسندیدہ چیز سے ھی اللہ کی پناہ مانگی جاتی ھے ،، :
( ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا ، فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي . قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
وروى أيضا قال : أخبرنا هشام بن محمد ، حدثني ابن الغسيل ، عن حمزة بن أبي أسيد الساعدي ، عن أبيه – وكان بدريا – قال : ( تزوج رسول الله أسماء بنت النعمان الجونية ، فأرسلني فجئت بها ، فقالت حفصة لعائشة أو عائشة لحفصة : اخضبيها أنت وأنا أمشطها ، ففعلن ، ثم قالت لها إحداهما : إن النبي، صلى الله عليه وسلم يعجبه من المرأة إذا دخلت عليه أن تقول أعوذ بالله منك . فلما دخلت عليه وأغلق الباب وأرخى الستر مد يده إليها فقالت : أعوذ بالله منك ،،، جب حضرت عائشہؓ اور حضرت حفصہؓ نے کنگھی کرتے ھوئے یا اس کو بناؤسنگھار کرتے ھوئے بتا دیا تھا کہ اللہ کے رسولﷺ کو اعوذ باللہ منک ” بڑا پسند ھے تو پھر اس عورت نے رسول اللہ ﷺ کو سوقہ کہہ کر کیسی عزت افزائی فرمائی ؟ اب تو یہ عذر بھی باقی نہ بچا کہ وہ جانتی نہیں تھی کہ آپ ﷺ رسول اللہ ھیں اور لوگوں نے اسے بعد میں بتایا ؟ خود محدث اس کہانی میں اتنے مضطرب ھیں کہ کچے آٹے کی طرح بات ان سے سنبھالی نہیں جا رھی کہ کبھی ایک طرف لٹک جاتی ھے تو کبھی دوسری ،، اور ساری باتیں سب سے صحیح کتاب بخاری شریف میں ھیں ،، خود اس عورت پر کسی کا اتفاق نہیں ،،کبھی وہ میزبان ھے اور عورت کو کہیں باھر سے لا کر اس کے باغ میں اتارا گیا ھے اور کہیں وہ خود ھی نکاح کرنے والی ھے ، اگر وہ مدینے کی تھی تو حضورﷺ کی مجلس میں اس کا کے حسن کے چرچے کا کیا مطلب تھا ؟ کیا حضور ﷺ کو یہ بات امھات المومنین کے ذریعے پتہ نہیں چل سکتی تھی جن کے پاس مدینے کی عورتیں ھر وقت چلی رھتی تھیں ؟ پھر کیا صحابہؓ حضورﷺ کو معاذاللہ ٹھرکی سمجھتے تھے کہ وہ لوگوں کی بہو بیٹیوں کے حسن کے چرچے آپ کی مجلس میں کیا کرتے تھے ؟ اور کیا یہ انداز درست ھے کہ فلاں کی بیٹی کے حسن کا چرچا آپ کی مجلس میں کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ارسل الیہا ،،، اس اٹھوا لاؤ ؟ پھر جب وھاں سے عزت کروا کر نکلے تو باھر دوسرا اپنا مال بیچنے کے لئے داؤ لگانے کھڑا تھا کیونکہ اسے بھی معاذ اللہ آپ کی حسن پرستی کے مرض کا پتہ تھا ،، اس نے کہا کہ میرے پاس اس سے بھی خوبصورت دانہ ھے اور حضورﷺ نے اس عورت کے دین اور حسن کے بارے میں تفصیل معلوم کیئے بغیر اعلانِ نکاح فرما لیا کہ ” میں نے نکاح کیا ” کیا نبیوں کے نبی اور تاجدارِ حرم کا نکاح اس طرح گڈے گُڈی کی طرح ھوتا ھے ؟ جبکہ وہ عورت یہ سنتے ھی مرتد بھی ھو گئ کہ آپ ﷺ کا وصال ھو گیا ھے ؟اس کا بھائی بھی مرتد ھو گیا ،، کیا شادی سے متصل قبل جبکہ آپ ﷺ کے جوڑوں کا درد انتہا کو پہنچ گیا تھا اور آپ کو نماز پڑھنے میں بھی دقت محسوس ھوتی تھی یہ بیک وقت دو عجیب و غریب شادیوں کا تحفہ دینا ضروری تھا ؟ جونیہ سے نکاح ثابت نہیں ،، بس اس کو اٹھوا لیا گیا ،جبکہ امام صاحب طلاق ثابت فرما رھے ھیں کہ عورت کو اتنا کہہ دیا جائے گے ” گھر والوں کے پاس چلی جاؤ ” کہنے سے بھی طلاق ھو جاتی ھے ،، قربان اس سادگی کے کہ صرف یہ مسئلہ ثابت کرنے کے لئے کیسی واہیات روایت نبئ کریم سے منسوب کر دی ،،
حضور ﷺ اس کو کپڑوں کا جوڑا دے کر فارغ ھوئے تو رستے میں ایک اور صاحب مورچہ لگائے بیٹھے تھے گویا وہ جانتے تھے کہ رسول اللہﷺ کتنے حسن پرست واقع ھوئے ھیں ، وہ جھٹ آگے بڑھے اور بولے آپ دل چھوٹا نہ کریں ،، میں آپ کو اس سے زیادہ حسین و جمیل اور جاہ و حشم والی عورت بتاتا ھوِں ،، ( یہاں بھی مجال ھے جو دینداری کا ذکر ھوا ھو ) آپ ﷺ نے پوچھا وہ کون ھے ؟ اس نے کہا کہ میری بہن ھے ،، آپ ﷺ نے فرمایا ” میں نے اس سے نکاح کیا ” یعنی نہ سوچا نہ سمجھا ، نہ دیکھا نہ بھالا ،، کہنے والی تو اپنی بیٹی کو خوبصورت کہتے ھی ھیں ، آپ ﷺ نے تو حکم دیا تھا کہ لڑکی دیکھ لیا کرو ،، وہ مشورہ کدھر گیا ؟ خیر اس شادی کا انجام پہلی سے بھی بُرا ھوا ،، وہ بھائی صاحب یمن اپنی بہن لینے گئے اور جب وھاں سے بہن لے کر چلے تو رستے میں ان کو خبر ملی کہ نبئ کریمﷺ کا تو وصال ھو گیا ھے ،، اور وہ دونوں بہن بھائی مرتد ھو گئے ،، ( گویا ام المومنین بھی مرتد ھو گئیں ؟ )
ابن سعد طبقات میں لکہتے ہیں
جب اسماء بنت نعمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ہوں میں آپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون اس نے کہا میری بہن قتیلہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آگے بڑہے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو یہ دونوں بہن بہائی مرتد ہوگئے۔ پھر قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اور پھر مکشوع مرادی نے ان سے نکاح کیا۔
آگے لکہتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو قبیلہ کندہ کی ایک عورت قتیلہ کے مالک ہوئے تھے لیکن وہ اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہوگئی تھی پھر بعد میں اس سے عکرمہ نے نکاح کرلیا یہ بات حضرت صدیق رضہ کو گراں گزری لیکن حضرت عمر رضہ نے انہیں کہا کہ یہ عورت امہات میں سے نہیں ہے نہ آپ نے اس کو اختیار دیا نہ ہی اس کو پردہ کرایا اور اللہ تعالی نے آپ کو اس سے بری کردیا ہے کیوں کہ وہ مرتد ہوگئی ہے،،
ھمیں اس عورت قتیلہ کے ام المومنین ھونے یا نہ ھونے کی بحث سے کچھ لینا دینا نہیں ،، بس یہ طریقہ نکاح جو روایت ھوا ھے کہ ایک خیمے سے عزت کرا کر نکلے ھیں تو گلی میں کھڑے کھڑے دوسرا نکاح کر لیا اور وہ بھی اس عورت سے کہ جو اتنے ایمان والی تھی کہ وفات کا سن کر ھی مرتد ھو گئ ،،، انا للہ و انا الیہ راجعون ،،،
عربی متن ،،،،،،،،،،،
هذه القصة صحيحة ، وردت في أحاديث عدة وسياقات يكمل بعضها بعضا :
فروى البخاري رحمه الله في صحيحه (5254) عن الإمام الأوزاعي قَالَ : سَأَلْتُ الزُّهْرِي أَي أَزْوَاجِ النَّبِي صلى الله عليه وسلم اسْتَعَاذَتْ مِنْهُ ؟
قَالَ : أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ ، عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها : ( أَنَّ ابْنَةَ الْجَوْنِ لَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم وَدَنَا مِنْهَا قَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ لَهَا : لَقَدْ عُذْتِ بِعَظِيمٍ ، الْحَقِى بِأَهْلِكِ ) .
وروى البخاري أيضا في صحيحه (5255) عَنْ أَبِى أُسَيْدٍ رضى الله عنه قَالَ :
( خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى انْطَلَقْنَا إِلَى حَائِطٍ يُقَالُ لَهُ الشَّوْطُ ، حَتَّى انْتَهَيْنَا إِلَى حَائِطَيْنِ ، فَجَلَسْنَا بَيْنَهُمَا ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم : اجْلِسُوا هَا هُنَا . وَدَخَلَ وَقَدْ أُتِىَ بِالْجَوْنِيَّةِ ، فَأُنْزِلَتْ فِي بَيْتٍ فِي نَخْلٍ فِي بَيْتٍ أُمَيْمَةُ بِنْتُ النُّعْمَانِ بْنِ شَرَاحِيلَ ، وَمَعَهَا دَايَتُهَا حَاضِنَةٌ لَهَا ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي .
قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
وروى أيضا رحمه الله (رقم/5256) عَنْ عَبَّاسِ بْنِ سَهْلٍ عَنْ أَبِيهِ وَأَبِى أُسَيْدٍ قَالاَ : ( تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أُمَيْمَةَ بِنْتَ شَرَاحِيلَ ، فَلَمَّا أُدْخِلَتْ عَلَيْهِ بَسَطَ يَدَهُ إِلَيْهَا ، فَكَأَنَّهَا كَرِهَتْ ذَلِكَ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ أَنْ يُجَهِّزَهَا وَيَكْسُوَهَا ثَوْبَيْنِ رَازِقِيَّيْنِ ) ثياب من كتان بيض طوال.
وروى أيضا رحمه الله (رقم/5637) عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ رضى الله عنه قَالَ :
( ذُكِرَ لِلنَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم امْرَأَةٌ مِنَ الْعَرَبِ ، فَأَمَرَ أَبَا أُسَيْدٍ السَّاعِدِيَّ أَنْ يُرْسِلَ إِلَيْهَا ، فَأَرْسَلَ إِلَيْهَا ، فَقَدِمَتْ فَنَزَلَتْ فِي أُجُمِ بَنِي سَاعِدَةَ ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم حَتَّى جَاءَهَا ، فَدَخَلَ عَلَيْهَا ، فَإِذَا امْرَأَةٌ مُنَكِّسَةٌ رَأْسَهَا ، فَلَمَّا كَلَّمَهَا النَّبِيُ صلى الله عليه وسلم قَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ. فَقَالَ : قَدْ أَعَذْتُكِ مِنِّى . فَقَالُوا لَهَا : أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ . قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ لِيَخْطُبَكِ . قَالَتْ : كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ . فَأَقْبَلَ النَّبي صلى الله عليه وسلم يَوْمَئِذٍ حَتَّى جَلَسَ فِي سَقِيفَةِ بَنِي سَاعِدَةَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ ، ثُمَّ قَالَ : اسْقِنَا يَا سَهْلُ . فَخَرَجْتُ لَهُمْ بِهَذَا الْقَدَحِ فَأَسْقَيْتُهُمْ فِيهِ ، فَأَخْرَجَ لَنَا سَهْلٌ ذَلِكَ الْقَدَحَ فَشَرِبْنَا مِنْهُ . قَالَ : ثُمَّ اسْتَوْهَبَهُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ بَعْدَ ذَلِكَ فَوَهَبَهُ لَهُ ) ورواه مسلم أيضا (2007)، الأجم : الحصون .
ثانيا :
اختلف العلماء في اسم هذه المرأة على أقوال سبعة ، ولكن الراجح منها عند أكثرهم هو : ” أميمة بنت النعمان بن شراحيل ” كما تصرح رواية حديث أبي أسيد . وقيل اسمها أسماء .
ثالثا :
لماذا استعاذت المرأة الجونية من رسول الله صلى الله عليه وسلم ؟
يمكن توجيه ذلك ببعض الأجوبة الآتية :
1- قد يقال إنها لم تكن تَعرِفُ رسولَ الله صلى الله عليه وسلم ، بدليل الرواية الأخيرة من الروايات المذكورة أعلاه ، وفيها : (. فَقَالُوا لَهَا : أَتَدْرِينَ مَنْ هَذَا ؟ قَالَتْ : لاَ . قَالُوا هَذَا رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم جَاءَ لِيَخْطُبَكِ . قَالَتْ : كُنْتُ أَنَا أَشْقَى مِنْ ذَلِكَ )
يقول الحافظ ابن حجر رحمه الله :
” وقال غيره : يحتمل أنها لم تعرفه صلى الله عليه وسلم ، فخاطبته بذلك .
وسياق القصة من مجموع طرقها يأبى هذا الاحتمال .
نعم سيأتي في أواخر الأشربة من طريق أبي حازم ، عن سهل بن سعد – فذكر الرواية الأخيرة ، ثم قال : –
فإن كانت القصة واحدة فلا يكون قوله في حديث الباب : ( ألحقها بأهلها ) ، ولا قوله في حديث عائشة : ( الحقي بأهلك ) تطليقا ، ويتعين أنها لم تعرفه .
وإن كانت القصة متعددة – ولا مانع من ذلك – فلعل هذه المرأة هي الكلابية التي وقع فيها الاضطراب ” انتهى.
"فتح الباري” (9/358)
2- ويذكر بعض أهل العلم أن سبب استعاذتها من النبي صلى الله عليه وسلم ما غرها به بعض أزواجه صلى الله عليه وسلم ، حيث أوهموها أن النبي صلى الله عليه وسلم يحب هذه الكلمة ، فقالتها رغبة في التقرب إليه ، وهي لا تدري أن النبي صلى الله عليه وسلم سيعيذها من نفسه بالفراق إن سمعها منه .
جاء ذلك من طرق ثلاثة :
الطريق الأولى :
يرويها ابن سعد في "الطبقات” (8/143-148)، والحاكم في "المستدرك” (4/39)، من طريق محمد بن عمر الواقدي وهو ضعيف في الحديث .
والطريق الثانية :
يرويها ابن سعد في الطبقات (8/144) بسنده عن سعيد بن عبد الرحمن بن أبزى قال: (الجونية استعاذت من رسول الله صلى الله عليه وسلم وقيل لها : هو أحظى لك عنده . ولم تستعذ منه امرأة غيرها ، وإنما خدعت لما رؤي من جمالها وهيئتها ، ولقد ذكر لرسول الله من حملها على ما قالت لرسول الله ، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : إنهن صواحب يوسف ).
الطريق الثالثة :
رواها ابن سعد أيضا في "الطبقات” (8م145) قال : أخبرنا هشام بن محمد بن السائب ، عن أبيه ، عن أبي صالح ، عن بن عباس قال : ( تزوج رسول الله صلى الله عليه وسلم أسماء بنت النعمان ، وكانت من أجمل أهل زمانها وأشبهم ، قال فلما جعل رسول الله يتزوج الغرائب قالت عائشة : قد وضع يده في الغرائب يوشكن أن يصرفن وجهه عنا . وكان خطبها حين وفدت كندة عليه إلى أبيها ، فلما رآها نساء النبي صلى الله عليه وسلم حسدنها ، فقلن لها : إن أردت أن تحظي عنده فتعوذي بالله منه إذا دخل عليك . فلما دخل وألقى الستر مد يده إليها ، فقالت : أعوذ بالله منك . فقال: أمن عائذ الله ! الحقي بأهلك )
وروى أيضا قال : أخبرنا هشام بن محمد ، حدثني ابن الغسيل ، عن حمزة بن أبي أسيد الساعدي ، عن أبيه – وكان بدريا – قال : ( تزوج رسول الله أسماء بنت النعمان الجونية ، فأرسلني فجئت بها ، فقالت حفصة لعائشة أو عائشة لحفصة : اخضبيها أنت وأنا أمشطها ، ففعلن ، ثم قالت لها إحداهما : إن النبي، صلى الله عليه وسلم يعجبه من المرأة إذا دخلت عليه أن تقول أعوذ بالله منك . فلما دخلت عليه وأغلق الباب وأرخى الستر مد يده إليها فقالت : أعوذ بالله منك . فتال بكمه على وجهه فاستتر به وقال : عذت معاذا ، ثلاث مرات . قال أبو أسيد ثم خرج علي فقال : يا أبا أسيد ألحقها بأهلها ومتعها برازقيتين ، يعني كرباستين ، فكانت تقول : دعوني الشقية ) .
وهذه الطرق قد يعضد بعضها بعضا ويستشهد بمجموعها على أن لذلك أصلا .
3- وذكر آخرون من أهل العلم أن سبب استعاذتها هو تكبرها ، حيث كانت جميلة وفي بيت من بيوت ملوك العرب ، وكانت ترغب عن الزواج بمن ليس بِمَلِك ، وهذا يؤيده ما جاء في الرواية المذكورة أعلاه ، وفيها : ( فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهَا النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم قَالَ : هَبِي نَفْسَكِ لِي . قَالَتْ : وَهَلْ تَهَبُ الْمَلِكَةُ نَفْسَهَا لِلسُّوقَةِ . قَالَ : فَأَهْوَى بِيَدِهِ يَضَعُ يَدَهُ عَلَيْهَا لِتَسْكُنَ . فَقَالَتْ : أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْكَ . فَقَالَ : قَدْ عُذْتِ بِمَعَاذٍ . ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا ، فَقَالَ : يَا أَبَا أُسَيْدٍ اكْسُهَا رَازِقِيَّتَيْنِ وَأَلْحِقْهَا بِأَهْلِهَا )
يقول الحافظ ابن حجر رحمه الله :
” ( السُّوقة ) قيل لهم ذلك لأن الملك يسوقهم فيساقون إليه ، ويصرفهم على مراده ، وأما أهل السوق فالواحد منهم سوقي . قال ابن المنير : هذا من بقية ما كان فيها من الجاهلية ، والسوقة عندهم من ليس بملك كائنا من كان ، فكأنها استبعدت أن يتزوج الملكة من ليس بملك ، وكان صلى الله عليه وسلم قد خير أن يكون ملكا نبيا ، فاختار أن يكون عبدا نبيا ، تواضعا منه صلى الله عليه وسلم لربه ، ولم يؤاخذها النبي صلى الله عليه وسلم بكلامها ، معذرة لها لقرب عهدها بجاهليتها ” انتهى.
"فتح الباري” (9/358)
هذا ما تحصَّل ذكرُه من أسباب جاءت بها الروايات وكلام أهل العلم ، وكله يدل على كريم أخلاقه صلى الله عليه وسلم ، حيث لم يكن يرضى أن يتزوج مَن يشعر أنها لا ترغبه ، وكان يأبى صلى الله عليه وسلم أن يصيب أحدا من المسلمين بأذى في نفسه أو ماله .
والله أعلم .
5314 حدثنا سعيد بن أبي مريم حدثنا أبو غسان قال حدثني أبو حازم عن سهل بن سعد رضي الله عنه قال ذكر للنبي صلى الله عليه وسلم امرأة منالعرب فأمر أبا أسيد الساعدي أن يرسل إليها فأرسل إليها فقدمت فنزلت في أجم بني ساعدة فخرج النبي صلى الله عليه وسلم حتى جاءها فدخل عليها فإذا امرأة منكسة رأسها فلما كلمها النبي صلى الله عليه وسلم قالت أعوذ بالله منك فقال قد أعذتك مني فقالوا لها أتدرين من هذا قالت لا قالوا هذا رسول الله صلى الله عليه وسلم جاء ليخطبك قالت كنت أنا أشقى من ذلك فأقبل النبي صلى الله عليه وسلم يومئذ حتى جلس في سقيفة بني ساعدة هو وأصحابه ثم قال اسقنا يا سهل فخرجت لهم بهذا القدح فأسقيتهم فيه فأخرج لنا سهل ذلك القدح فشربنا منه قال ثم استوهبه عمر بن عبد العزيز بعد ذلك فوهبه له
2) حضرت عمر نے قتیلہ بنت قیس کو خارج کیا تھا
قتیلہ بنت قیس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے کہ اس کے ساتھ نکاح کب ہوا اور کچہ تاریخ دانوں نے اس کا زکر تک نہیں کیا۔
چناچہ
Quote
حافظ ابن کثیر لکہتے ہیں کہ
بعض کا کہنا ہے کہ وفات سے دو مہینے پہلے نکاح ہوا اور بعض کا کہنا ہے دوران علالت آپ نے نکاح کیا تھا ۔
اور حافظ ابن کثیر لکہتے ہیں کہ جن عورتوں کو آپ نے نکاح کیا اور گہر لانے سے پہلی طلاق دی تو ان سے کوئی اور مسلمان نکاح کرسکتا ہے ۔ قتیلہ بنت قیس کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بارے میں کوئی وصیت نہیں بعض کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اختیار دیا تھا کہ چاہے تو پردہ کرے اور امہات میں شامل ہوجائے اور چاہے تو آزاد ہو جائے اور کسی اور سے نکاح کرلے اس نے دوسرے شرط کو قبول کیا اور وہ آزاد ہوگئی۔ (البدایہ والنہایہ)
Quote
یہی بات ابن نے اسد الغابہ میں لکہی ہے
کہ آپ نے ان سے نکاح کیا لیکن نہ تو اس عورت نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکہا اور نہ اس نے حضور کو دیکہا
ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اختیار دیا کہ چاہے تو پردہ کرلے اور چاہے تو طلاق دے دیں اور کسی اور سے نکاح کرلے اور حضور نے طلاق دیدی۔اس نے بعد میں عکرمہ سے نکاھ کرلیا حضرت ابو بکر نے انہیں رجم کرنا چاہا لیکن حضرت عمر نے کہا کہ یہ امہات المومنین میں شامل نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پردے کا حکم نہیں دیا تھا۔ ان کے علاہ دوسری ان خواتین کے بارے میں جن سے دخول کی نوبت نہیں آئی تھی علماء میں زبردست اختلاف ہے۔( اسد الغابہ جلد 3 زکر قتیلہ)
Quote
ابن سعد طبقات میں لکہتے ہیں
جب اسماء بنت نعمان نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اللہ کی پناہ مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ سے باہر آگئے تب اشعث بن قیس نے کہا کہ آپ غمگین نہ ہوں میں آپ کا نکاح اس سے نہ کردوں جو اس سے حسب نسب میں کم نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کون اس نے کہا میری بہن قتیلہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے نکاح کرلیا۔ پھر اشعث یمن اسے لینے گئے اور یمن سے آگے بڑہے تو انہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو یہ دونوں بہن بہائی مرتد ہوگئے۔ پھر قتیلہ نے اور نکاح کرلیا کیوں کہ مرتد ہونے کے ساتھ اس کا نکاح ٹوٹ گیا تھا اور پھر مکشوع مرادی نے ان سے نکاح کیا۔
آگے لکہتے ہیں کہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب فوت ہوئے تو قبیلہ کندہ کی ایک عورت قتیلہ کے مالک ہوئے تھے لیکن وہ اپنی قوم کے ساتھ مرتد ہوگئی تھی پھر بعد میں اس سے عکرمہ نے نکاح کرلیا یہ بات حضرت صدیق رضہ کو گراں گزری لیکن حضرت عمر رضہ نے انہیں کہا کہ یہ عورت امہات میں سے نہیں ہے نہ آپ نے اس کو اختیار دیا نہ ہی اس کو پردہ کرایا اور اللہ تعالی نے آپ کو اس سے بری کردیا ہے کیوں کہ وہ مرتد ہوگئی ہے اپنی قوم کے ساتھ ۔
Quote
ابن سعد عروۃ بن زبیر کا قول نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے تھے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے قتیلہ سے نکاح نہیں کیا تھا بلکہ جونیہ کندیہ سے نکاح کیا تھا اور اسے بھی دیکھتے ہی طلاق دے دی تھی
وقيل : إنه طلقها قبل أن يدخل بها ، ثم مات عليه السلام
اور کہا جاتا ہے کہ حضور علیہ السلام نے ان کو طلاق دے دی، اس سے قبل کہ ان سے مقاربت کرتے، اس کے بعد آپ علیہ السلام وفات پا گئے۔

2 تبصرے

آنے والے دور کے انسان ہم سے جینا سیکھیں گے۔

پاکستان میں ہر مہینے کا اپنا اپنا جھوٹ ہے جسے پاکستانی بہت کثرت سے بولتے ہیں، اگست کے مہینے کا سب سے بڑا جھوٹ ملی نغموں میں بولا جاتا ہے۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اسکے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ گاں اسکے


پولیس تھانوں میں چھترول کر رہی ہے، جج عدالتوں میں استحصال کر رہے ہیں، نسلوں بعد بھی انصاف نہیں ملتا، سیاستدان ہڈیوں سے چپکی ہوئی کھال تک اتار رہے ہیں، افواج ہاوسنگ سوسائٹیاں اور فیکڑیاں چلا رہی ہیں، پانی نہیں، گیس نہیں، بجلی نہیں، عام آدمی کے اختیار کا عالم یہ ہے کہ، آپکی شادی ہوگئی ہے اب آپ سہاگ رات منائیں گے یا سہاگ سویرا اسکا فیصلہ آپ نہیں واپڈا یا کے الیکڑک کریں گے، پھر بھی کیا کہا جاتا ہے، یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اسکے۔

ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں
ہم سبکی ہے پہچان ہم سبکا پاکستان

ابھی کل ہی خبر بریک ہوئی ہے اس قوم کے زندہ و جاوید ہونے کی تین سو بچوں کے ساتھہ بد فعلی اور پھر انکی ویڈیوز بنا کر بلیک میلنگ، اتنا سب ہونے کے باواجود بھی سرکار مجرموں کو تحفظ دے رہی ہے۔ واقعی ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں، ہم پردے اور فحاشی کا سب سے زیادہ پرچار کرنے والے وہ کچھہ کرتے ہیں جو ننگے سے ننگے معاشروں میں بھی نہیں ہوتا۔

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
سانجی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں

گھنٹہ ایک ہیں، پرچم ہی ایک نہیں ہے تو سائے تلے کہاں سے ایک ہوسکتے ہیں، سانجی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، سب سے بڑا جھوٹ ہے یہ، شعیہ مرتا ہے تو سنی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، سنی مرتا ہے تو شعیہ کے کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، فرقے کی غلاضت سے نکلو تو قوم پرستی کا اژدھا سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے جب تک اپنی نسل اپنی قوم کا بندہ نہ مرے کسی کو بھی فرق نہیں پڑتا۔

ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے ہاں جیتیں گے
آنے والے دور کے انساں ہم سے جینا سیکھیں گے

کوئی ایک میدان ایسا نہیں جس میں جیت ہمارا مقدر بنتی ہو، ہر جگہ زلیل ہو کر ہارتے ہیں، کرکٹ سے لے کر ہاکی تک، تجارت سے لے کر ملکی سلامتی تک ہر ہر جگہ ہار ہمارا مقدر بنتی ہے، آدھا ملک گنوا دیا، امریکہ ساری رات آپریشن کر کے لاشیں تک ساتھ لے جاتا ہے، اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ریڈار کا رخ بھارت کی طرف تھا ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔
سم فری اور روٹی دس روپے کی، غریب لڑکی کی عصمت کی قیمت محض پانچ ہزار روپے، قبروں سے مردے نکال کر انکے ساتھہ بد فعلی کرنے والے، گلی کے کتوں کے کانوں کو ایلفی سے کھڑا کر کے انہیں ایلسیشئین کہہ کر بیچنے والے، شادی ہالز کے قریب گٹر میں جم جانے والا آئل نکال کر بیچنے والے، مردہ جانوروں کا گوشت بیچنے والے، ایک دوسرے کا حق مارنے والے جھوٹ کے سوداگر، بلڈ بینک میں خون میں نمک والا پانی ملا کر بیچنے والے، جعلی دوائیاں بنانے والے، معصوم بچوں کی غذا دودھہ میں بال صاف کرنے والا پاوڈر ملانے والے، کہتے ہیں کہ، آنے والے دور کے انساں ہم سے جینا سیکھیں گے۔ آنے والے دور کے انساں ہمارے جینے پر صرف لعنتیں ہی دیں گے۔

شائع کردہ از ہمارا معاشرہ | 1 تبصرہ

آنے والے دور کے انساں ہم سے جینا سیکھیں گے

اکستان میں ہر مہینے کا اپنا اپنا جھوٹ ہے جسے پاکستانی بہت کثرت سے بولتے ہیں، اگست کے مہینے کا سب سے بڑا جھوٹ ملی نغموں میں بولا جاتا ہے۔
یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اسکے
یہ چمن تمہارا ہے تم ہو نغمہ گاں اسکے


پولیس تھانوں میں چھترول کر رہی ہے، جج عدالتوں میں استحصال کر رہے ہیں، نسلوں بعد بھی انصاف نہیں ملتا، سیاستدان ہڈیوں سے چپکی ہوئی کھال تک اتار رہے ہیں، افواج ہاوسنگ سوسائٹیاں اور فیکڑیاں چلا رہی ہیں، پانی نہیں، گیس نہیں، بجلی نہیں، عام آدمی کے اختیار کا عالم یہ ہے کہ، آپکی شادی ہوگئی ہے اب آپ سہاگ رات منائیں گے یا سہاگ سویرا اسکا فیصلہ آپ نہیں واپڈا یا کے الیکڑک کریں گے، پھر بھی کیا کہا جاتا ہے، یہ وطن تمہارا ہے تم ہو پاسباں اسکے۔

ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں
ہم سبکی ہے پہچان ہم سبکا پاکستان

ابھی کل ہی خبر بریک ہوئی ہے اس قوم کے زندہ و جاوید ہونے کی تین سو بچوں کے ساتھہ بد فعلی اور پھر انکی ویڈیوز بنا کر بلیک میلنگ، اتنا سب ہونے کے باواجود بھی سرکار مجرموں کو تحفظ دے رہی ہے۔ واقعی ہم زندہ قوم ہیں پائندہ قوم ہیں، ہم پردے اور فحاشی کا سب سے زیادہ پرچار کرنے والے وہ کچھہ کرتے ہیں جو ننگے سے ننگے معاشروں میں بھی نہیں ہوتا۔

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
سانجی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں ہم ایک ہیں

گھنٹہ ایک ہیں، پرچم ہی ایک نہیں ہے تو سائے تلے کہاں سے ایک ہوسکتے ہیں، سانجی اپنی خوشیاں اور غم ایک ہیں، سب سے بڑا جھوٹ ہے یہ، شعیہ مرتا ہے تو سنی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، سنی مرتا ہے تو شعیہ کے کو اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا، فرقے کی غلاضت سے نکلو تو قوم پرستی کا اژدھا سر اٹھائے کھڑا ہوتا ہے جب تک اپنی نسل اپنی قوم کا بندہ نہ مرے کسی کو بھی فرق نہیں پڑتا۔

ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے ہاں جیتیں گے
آنے والے دور کے انساں ہم سے جینا سیکھیں گے

کوئی ایک میدان ایسا نہیں جس میں جیت ہمارا مقدر بنتی ہو، ہر جگہ زلیل ہو کر ہارتے ہیں، کرکٹ سے لے کر ہاکی تک، تجارت سے لے کر ملکی سلامتی تک ہر ہر جگہ ہار ہمارا مقدر بنتی ہے، آدھا ملک گنوا دیا، امریکہ ساری رات آپریشن کر کے لاشیں تک ساتھ لے جاتا ہے، اور ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ریڈار کا رخ بھارت کی طرف تھا ہمیں پتہ ہی نہیں چلا۔
سم فری اور روٹی دس روپے کی، غریب لڑکی کی عصمت کی قیمت محض پانچ ہزار روپے، قبروں سے مردے نکال کر انکے ساتھہ بد فعلی کرنے والے، گلی کے کتوں کے کانوں کو ایلفی سے کھڑا کر کے انہیں ایلسیشئین کہہ کر بیچنے والے، شادی ہالز کے قریب گٹر میں جم جانے والا آئل نکال کر بیچنے والے، مردہ جانوروں کا گوشت بیچنے والے، ایک دوسرے کا حق مارنے والے جھوٹ کے سوداگر، بلڈ بینک میں خون میں نمک والا پانی ملا کر بیچنے والے، جعلی دوائیاں بنانے والے، معصوم بچوں کی غذا دودھہ میں بال صاف کرنے والا پاوڈر ملانے والے، کہتے ہیں کہ، آنے والے دور کے انساں ہم سے جینا سیکھیں گے۔ آنے والے دور کے انساں ہمارے جینے پر صرف لعنتیں ہی دیں گے۔

شائع کردہ از ہمارا معاشرہ | تبصرہ کریں

شائع کردہ از کچھ ہلکا پھلکا۔۔ | تبصرہ کریں

کچھ لکھیئے۔

تبصرہ کریں

تبصرہ کریں

اللہ کے واسطے ان حیوانوں کو پہچانو۔

تبصرہ کریں

غریب کے بچوں کو جہاد کی تلقین کرنے والوں کی اپنی اولادیں کیا کررہی ہیں ؟

پاکستان کے معصوم اور بدقسمتی سے کم علم رکھنے والے پاکستانیوں کو جس طرح اس نام نہاد جہاد کے لئیے استعمال کیا گیا اس کے نتائج آج سب کے سامنے ہیں.
زرا ملاحظہ کیجئیے ان درندوں کی درندگی کہ غریبوں کو جہاد کا درس دینے والے دنیاوی تعلیم کو کفر قرار دینے والے لڑکیوں کے اسکول تباہ کرنے والوں کے ان حمایتیوں نے دولت اور اقتدار کی خاطر غریب کے بچوں کو تو خود کش بمبار بنا دیا جہاد کے نام پہ مروا دیا مگر انکی اپنی اولادوں کو اس نام نہاد پری پیڈ ( پری پیڈ اسلئیے کہا کے جنگ میں تو مال غنیمت جنگ ختم ھونے کہ بعد آتا ھے مگر یہ کیسا پری پیڈ جہاد ھے جس میں مال غنیمت یعنی ڈالر، ہتھیار، لینڈ کروزر، پراڈو، اور بے انتہا دولت پہلے ہی آجاتی ھے) جہاد کے پاس بھی نہیں پھٹکنے دیا، ملاحضہ کیجئیے انکی اپنی اولادیں کیا کررہی ہیں؟۔
مولانا فضل الرحمان تین بیٹوں اور چار بیٹیوں کے باپ ہیں، انکے ایک بیٹے اسد محمود خیر المدارس ملتان میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں جبکہ ساتھ ساتھ دنیوی تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا ھوا ہے، دوسرے بیٹے انس محمود ڈی آئی خان میں دینی تعلیم حاصل کررہے ہیں، جبکہ تیسرے بیٹے اسجد محمود حفظ قرآن میں مگن ہیں، لیکن ان میں سے کوئی ایک بھی نہ فدائی بنا نہ ہی کسی نے افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد میں حصہ لیا اور نہ ہی کشمیر میں ہنود کے خلاف جہاد کا حصہ بنا۔ مولانا سمیع الحق یہ بھی غریبوں کے بچوں کو نام نہاد جہاد میں مروانے میں پیش پیش رہے ہیں اور ابھی تک ہیں، مولانا سمیع الحق نے دو شادیاں کی ہیں، ایک بیوی سے دو بیٹے اور ایک بیٹی ھے، ایک بیٹے کا نام مولانا حامد الحق حقانی ھے جو جامعہ حقانی سے تعلیم کے حصول کے ساتھھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی سے گریجویٹ ہیں، گذ شتہ اسمبلی میں ایم ایم اے کے ٹکٹ سے منتخب ھوئے اور قومی اسمبلی کے ممبر بنے، دوسرے بیٹے ارشاد الحق حقانی عالم دین ہیں اور حافظ قرآن ہیں یہ ماہنامہ الحق کے مدیر ہونے کے ساتھھ ساتھاپنے اپنے دارلعلوم میں درس و تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں، یعنی ہر طرف سے مال بنا رہے ہیں مگر جہاد کے لئیے غریب کے بچوں کو بھیجتے ہیں۔
مولانا سمیع الحق کی دوسری بیوی سے بھی دو بیٹے اور تین بیٹیاں ہیں مگر وہ ابھی کمسن ہیں مگر انہیں بھی جہاد پہ بھیجنے کا مولانا کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔ جہاد اور امریکہ دشمنی کے بظاہر ایک اور علمبردار صاحبزادہ فضل کریم ہیں انکے ایک بیٹے حامد رضا نے ایم اے اسلامیات، ایم بی اے، اور لندن کی ایک یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ھے اور اپنا بزنس رن کر رہے ہیں، دوسرے بیٹے حسن رضا لاہور کے ایک کالچ میں زیر تعلیم ہیں، تیسرے بیٹے محمد حسین رضا دینی تعلیم کے ساتھھ ساتھھ جی سی یونیورسٹی سے دنیاوی تعلیم بھی حاصل کررہے ہیں، جبکہ چھوتھے بیٹے محمد محسن رضا کالچ سے دنیاوی تعلیم لینے میں مصروف ہیں، مولانا سمیع الحق صاحب کی کوئی اولاد بھی جہاد میں حصے دار نہیں ہے۔
دنیا جانتی ھے کہ ہمارے اس خطے میں جہادی سوچ کی بنیاد جماعت اسلامی نے رکھی اس جماعت نے آج تک ہزاروں معصوم غریب بچوں کو لوگ اس نام نہاد جہاد میں جھونک دیا اس جماعت کے امیر منور حسن صاحب ایک بیٹی اور ایک بیٹے کے والد ہیں انکے دونوں بچے کراچی میں معمول کی زندگی گزار رہے ہیں بیٹی کی شادی ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی کی ھے اور انکا بیٹا طلحہ کراچی یونیورسٹی سے ماسڑز کی ڈگری لئیے ہوے ھے اور اس وقت آئ ٹی اور پراپرٹی کے کاروبار میں مگن ھے مگر جہاد کیا ھوتا ھے میدان جنگ کسے کہتے ہیں اسکا دور کا بھی واسطہ نہیں ان سب سے۔
اس ہی جماعت کے سابق امیر قاضی حسین احمد جو کے سب سے بڑے زمے دار ہیں ہمارے معاشرے میں یہ جہاد کے نام پہ فساد پھیلانے میں سب سے زیادہ بچے اس ہی شحص نے مروائے ہیں انکے اپنے بچے کیا کر رہے ہیں ملاحضہ کیجئیے، انکے بڑے صاحبزادے آصف لقمان قاضی ہیں جو کے امریکہ ( کفر کی علامت ) سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری لینے کے بعد سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہونے کے ساتھھ ساتھھ اپنے بزنس میں مصروف ہیں، جبکہ دوسرے بیٹے ڈاکڑ انس قاضی پرائیویٹ میڈیکل کالج سے ایم بی بی ایس کرنے کے بعد پشاور میں صحت کے شعبے میں کاروبار کررہے ہیں۔ایک اور صاحب ہیں پروفیسر ساجد میر، انکے بھی دو بیٹے ہیں ایک بیٹے احمد میر نے نائیجیریا سے میڑک کے بعد پشاور یونیورسٹی سے ڈگری لی اور اس وقت سیالکوٹ میں گڈز فارورڈنگ کا بزنس چلا رہے ہیں، دوسرے بیٹے عاقب میر نے بھی نائیجیریا سے میٹرک کرنے کے بعد الخیر یونیورسٹی لاہور سے ام سی ایس کیا ھے اور اس وقت کینڈا کی ایک کمپنی سے وابسطہ ہیں۔باقی بچے وہ فوجی جرنیل جنھوں نے بورے بھر بھر کے امریکہ سے ڈالر لئیے ہیں اس پری پیڈ جہاد کے لئیے تو ان میں سے بھی کسی ایک کی بھی اولاد نے اس جہاد میں عملی حصہ نہیں لیا سب کی اولادیں بیرون ملک پڑھی ہیں اور کتنے تو وہیں سیٹلڈ ھوگئیے ہیں، حمید گل نے ٹی پر خود اقرار کیا تھا کے امریکہ سے ڈالر آتے تھے اور جو ملا جتنے بچے لاتا تھا جہاد کے لئیے ہم اسے فی بچے کے حساب سے ڈالر دیا کرتے تھے۔ تو یہ ہیں ہمارے نام نہاد مذہبی رہنما جنکا کردار واضع ھے کہ دولت کی خاطر کیسے انہوں نے غریب کے بچوں کو مروایا اور اپنے بچوں کو بیرون ملکوں میں اعلی سے اعلی تعلیم دلوائی کاش انکا بھی احتساب ھو اور انکو بھی اس ہی طرح سر عام لٹکایا جائے جسطرح غریب کے بچے جہاد کے نام پر مار دئیے گئے۔

1 تبصرہ