کامیابی کا راز


اہم یہ بات نہیں ہے کہ ہمارا دل کیا چاہتا ہے اہم یہ بات ہے کہ ہماری ضرورت کیا ہے؟ دنیا میں جتنے بھی کامیاب لوگ ہیں انکے دو نظریئے انتہائی شفاف ہیں ایک، زندگی سے کیا پانا ہے؟ دو۔ جو پانا ہے اسے کیسے پانا ہے؟
ہر انسان کے زہن سے پورے دن میں کم از کم پچپن سے ساٹھہ ہزار خیالات روز گزرتے ہیں جن میں سے پینتالیس ہزار خیالات منفی اور محض دس ہزار خیالات مثبت ہوتے ہیں، پینتالیس ہزار منفی خیالات دماغ سے نہ گزریں یہ انسان کے ہاتھہ میں نہیں ہے ہاں لیکن مثبت دس ہزار خیالات میں سے جتنے خیالات انسان چاہے اپنے ذہن میں روک سکتا ہے اپنے خیالات کو مثبت خیالات کا مسکن بنا سکتا ہے۔ کامیابی کے لئیے ضروری ہے کہ انکے بارے میں سوچیں انکے بارے میں بات کریں جو آپکے بارے میں سوچتے ہیں جو آپکے بارے میں بات کرتے ہیں، ہم سارا دن ایسے لوگوں کے بارے میں سوچنے اور بات کرنے میں گزار دیتے ہیں جو ہمارے بارے میں بات کرنا تو دور ہمیں جانتے تک نہیں، ہم بات کرتے ہیں عمران خان کی، ہم بات کرتے ہیں نواز شریف کی، ہم بات کرتے ہیں آصف علی زرداری کی ہم بات کرتے ہیں راحیل شریف کی۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی آج تک ہماری بات کی ہے؟ ان میں سے کوئی ایک بھی جانتا ہے ہمیں؟ تو پھر ہم کیوں اپنا قیمتی وقت اور توانائی انکے بارے میں سوچ کر اور بات کر کے ضائع کر دیتے ہیں؟۔
جتنے بھی کامیاب لوگ نظر آئیں گے وہ ان سب خرافات سے خود کو پاک رکھتے ہیں وہ کسی سیاسی و مذہبی بحث و مباحثے میں نہیں پڑتے انکی ساری توانائی صرف اور صرف اپنے مقصد اپنے گول کے لئیے ہوتی ہے انکا سونا جاگنا اٹھنا بیٹھنا ہر ہر کام اپنے مقصد کی تکمیل کے لئیے ہوتا ہے۔
ہم دوسروں کی پرسنیلٹی دیکھہ کر اپنی پرسنیلٹی بنانے پر توجہ رکھتے ہیں ہمارا اپنا نہ کوئی ذوق ہوتا ہے نہ ذہنیت ہوتی ہے کسی بھی کامیاب مشہور انسان کو بت بنا لیتے ہیں اور اسکی پوجا شروع کر دیتے ہیں، یاد رکھیں جو لوگ دوسروں کو دیکھہ کر اپنی پرسنیلٹی بناتے ہیں وہ کبھی بھی خود سے پیار نہیں کر سکتے اور جو خود سے پیار نہیں کرسکتا وہ کسی سے بھی پیار نہیں کرسکتا۔
اکثر لوگوں کے ناکام ہونے کی سب سے بڑی وجہ بر وقت فیصلہ لینے کی صلاحیت کا نہ ہونا ہوتا ہے، وہ ساری زندگی اس ہی شش و پنج میں گزار دیتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو جائے کہیں ویسا نہ ہوجائے، ہم آج جو بھی کچھہ ہیں وہ اپنے ہی ماضی میں لئیے ہوئے فیصلوں کی وجہ سے ہیں، اور آج ہم جو کچھہ نہیں ہیں وہ بھی درست وقت پر درست فیصلے نہ لینے کی وجہ سے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں جب صحیح وقت آئیگا تب فیصلہ لے لیں گے، یہ سوچ نہیں سراب ہے کیونکہ نہ صحیح وقت آئیگا اور نہ ہی وہ فیصلہ لیں گے، جس وقت ہم نے فیصلہ لے لیا بس وہ ہی وقت صحیح وقت ہوتا ہے باقی سب طفل تسلیاں ہیں خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے، کم ہمتی ہے بزدلی ہے۔
انسان جہاں سے جاگے وہیں سے سویرا سمجھے، لسٹ بنائیں ان تمام فیصلوں کی جو آپ لینا چاہتے تھے مگر کسی بھی ان دیکھے خوف و خدشے کی وجہ سے نہیں لے سکے، خود کو ایک مہینے کا وقت دیجئیے اور فیصلوں پہ عمل درآمد کر گزرئیے، ایک مہینے سے تین مہینے بعد نتائچ آنا شروع ہو جائیں گے۔ آج ہم جو کچھہ بھی ہیں جہاں بھی ہیں وہ ماضی کے غلط یا صحیح لئیے ہوئے فیصلوں کی وجہ سے ہیں اور اگلے پانچ دس سالوں بعد جو ہم نے ہونا ہے انکا دارومدار ہمارے آج کے لئیے ہوئے فیصلوں پر ہونا ہے۔ اگر کسی کو لگنا ہے کہ اسکا کوئی گول نہیں ہے اسکی تو زندگی ہی گول ہے تو پھر اسے مان لینا چاہئیے کہ وہ زندہ انسان تو نہیں ہے وہ مر چکا ہے بس اپنے دفنائے جانے کا انتظار کر رہا ہے۔
دو چیزوں سے اپنے وجود کو آزادی دلوائیں، خوف اور تناو، خوف کا تعلق ہمارے ماضی کے تلخ تجربات سے ہوتا ہے، خود کو یقین دلائیں کے ہر دن اتوار نہیں ہوتا ماضی کے تجربات سے سیکھیں ضرور مگر تجربہ کرنا نہ چھوڑیں رسک لینا سیکھیں جس کام سے خوف آتا ہے سب سے پہلے وہ ہی کام کریں اگر حوصلہ بلند ہے تو خوف کو آپکے دل سے جانا ہی ہوگا وہ زیادہ دیر مزید آپکے دل میں گھر نہیں رکھہ پائے گا۔ تناو وہ ہے جو ابھی ہوا نہیں ہے مگر ہمیں اسکے ہونے کا خوف ہے۔ ان دو کیفیات سے خود کو نجات دلائیں یہ دو دیواریں گرا کر دیکھیں آپکی حقیقی خوشیاں ان دو دیواروں کے بلکل پیچھے کھڑی آپکی منتظر ہیں۔

This entry was posted in زمرے کے بغیر. Bookmark the permalink.

تبصرہ کریں