اعتماد سے خالی شخصیت کے نقصانات


خوفزدہ اور اعتماد سے خالی انسان کے لئیے عزت اور زلت کے پیمانے پر اعتماد انسان کے پیمانوں سے مختلف ہوتے ہیں۔ خوفزدہ اور اعتماد سے خالی انسان کو جھنجھوڑ کر بتانا پڑتا ہے جاگو کہ یہ زلت کا مقام ہے تمہارے لئیے۔ جبکہ پر اعتماد انسان اپنی عزت کی طرف آنے والی آنچ کی مہک سے ہی پہچان جاتا ہے کہ احتیاط لازم ہوچکی ہے۔
والدین سے ہاتھہ جوڑ کر التماس ہے اپنے بچوں کو ان دیکھے خوف سے نکالیں انہیں فیصلہ سازی میں انکا جائز مقام دیں، اپنے بچوں کا ریموٹ کنٹرول واپس بچوں کے ہاتھہ میں دیں، دینی شعور کے ساتھہ ساتھہ دنیاوی شعور سے بھی آراستہ کریں، دینی تعلیم اور نصابی تعلیم کے علاوہ معاشرتی علوم کے حوالے سے پڑھنے کے لئیے مواد مہیہ کریں، تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ ان میں دیگر مشاغل کی طرف رغبت پیدا کریں، ادب اور فنونِ لطیفہ سے آشنا کروائیں، شاعری، میوزک، رقص، انٹرنیشنل افئیرز، سیاسی حالات، اور اسطرح کے دیگر معاملوں میں بھی انکی نالج بڑھائیں، تاکے ان میں زمانے کا شعور بیدار ہوسکے انکی شخصیت میں اعتماد پیدا ہوسکے، وہ جب کسی سے بات کریں تو سامنے والے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مکمل اعتماد کے ساتھہ بات کریں، وہ ہر موضوع پر بات کر سکیں، معاملات کو سمجھہ سکیں، آنے والے حالات کے لئیے خود کو ہر طرح سے تیار رکھہ سکیں اور زمانے کی درندگی کے لئیے آسان حدف ثابت نہ ہوں۔ خوفزدہ اور اعتماد سے خالی انسان کا وجود نہ صرف اپنی زات پر بوجھہ ہوتا ہے بلکہ زمانے کے لئیے بھی صرف ایک بوجھہ ہی ہوتا ہے وہ کتنی ہی تعلیم حاصل کر لے لیکن دوسروں کے لئیے تو کجا اپنے لئیے بھی کوئی تعمیری کام کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔ بچوں میں اتنا اعتماد پیدا کریں کہ آنے والی کسی بھی مشکل کا سامنا وہ خود اپنی زات میں موجود ہنر اور صلاحیتوں سے کر سکیں، بچوں کو خود ترس بنانے والے والدین خود تو دنیا سے چلے جاتے ہیں لیکن ایسی اولادوں کو ساری زندگی کے لئیے معاشرے کی حیوانیت کا سامان بنا کر چلے جاتے ہیں۔ اگر آپ نے بیٹے کو اعتماد سے خالی شخصیت دی ہے اور ساتھہ اسے کروڑوں روپے کا ورثہ دیا ہے تو یقین جانئیے محض چند سالوں میں آپکی زندگی بھر کا یہ اثاثہ یہ معاشرہ آپکے بیٹے سے ہتھیا لے گا، ٹھیک اس ہی طرح اگر آپ نے بیٹی کو اعتماد سے خالی شخصیت دی ہے اور ساتھہ اسے حضرت رابعہ بصری جیسی عزت اور شرم و حیاء دی ہو تب بھی وہ بیچاری اپنی عزت اپنی شرم و حیاء کی حفاظت نہیں کر پائے گی، اور اگر کسی طرح اس معاشرے کی درندگی سے بچ بھی گئی تو عملی زندگی میں تعلیم، اچھی شکل و صورت اچھی سیرت ہونے کے باواجود بھی ناکام ترین انسان کہلائے گی، شخصیت میں اعتماد کا فقدان اسکی تمام خوبیوں کو مگرمچھہ بن کر نگل جائے گا اور وہ دنیا کے لئیے محض ایک کھلونا بن کر رہ جائے گی۔ وہ زندگی جئیے گی نہیں صرف گزارے گی اور وہ بھی اپنی نہیں دوسروں کی شرطوں پر، کیونکہ آپ نے اسے خود پر اعتماد کرنے کی تربیت ہی نہیں دی اسلئیے اب وہ ساری زندگی کاندھے بدلتے بدلتے ہی گزار دے گی، ایسی بیٹی جب ماں باپ کے گھر ہوتی ہے تو ماں باپ اور بھائیوں کے کاندھے پر بھروسہ کئے رہتی ہے اور جب شادی ہو کر اپنے گھر چلی جاتی ہے تب ساری زندگی شوہر کے کاندھے کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہوتی ہے، اسکی ساری زندگی کاندھے بدلنے میں ہی گزر جاتی ہے، اعلیٰ تعلیم، اعلیٰ کردار، اعلیٰ مذہبی شعور کے باواجود بھی اسکے اندر اپنے انسان ہونے کا احساس جاگتا ہی نہیں، وہ دوسروں پر اکتفاء کرنے کو ہی زندگی سمجھہ بیٹھتی ہے، پھر یہ دوسروں پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ اسے کیسے استعمال کرتے ہیں، ایسی لڑکی ایک انسان سے زیادہ ایک پروڈکٹ میں تبدیل ہو جاتی ہے ہر انسان اسے اپنی ضرورت کے تحت ہی استعمال کرتا ہے بس۔ اگر آپکے نزدیک اسے ہی اولاد سے محبت کہتے ہیں ایسی زندگی کو ہی زندگی کہتے ہیں تو پھر یقیناؐ آپ جو کر رہے ہیں درست کر رہے ہیں، لیکن اگر آپکو لگتا ہے کہ نہیں ہم اپنی اولاد کے لئیے ایسی زندگی کا سوچ بھی نہیں سکتے تو پھر خدارا اپنی سوچ اپنے عمل اپنے رویوں میں تبدیلی لائیے، اپنی اولاد کے انسان ہونے کا حق قبول کیجئیے، اسے معاملاتِ زندگی اپنے انداز سے کرنے کی اجازت دیجئیے، اس پر اعتماد کیجئیے، اسکا حوصلہ بنئیے اسکی کمزوری نہیں، اسے اپنے کیرئیر سے لے کر شریکِ حیات چننے کا حق دیجئیے، اچھے برے کی تمیز سکھائیے، کیونکہ اعتماد سے خالی انسان کا سب سے بڑا المیہ یہ ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے ذہن سے سوچتا ہے، کیونکہ اسے اپنے ذہن سے سوچنے کی تربیت دی ہی نہیں گئی ہوتی تو دوسروں کے ذہن سے سوچنے والا ہمیشہ خسارے میں رہتا ہے، اسکے اندر اچھے برے کو پرکھنے کا شعور ہی نہیں ہوتا، وہ ہمیشہ اچھے کو برا اور برے کو اچھا سمجھتا ہے، جھوٹی ہمدردی اسکی سب سے بڑی اور زود ہضم غذاء ہوتی ہے جو بھی اس سے جھوٹی ہمدردی دکھاتا ہے وہ اسے ہی اپنا مسیحا سمجھہ بیٹھتا ہے۔ کہتے ہیں نہ غلام ہمیشہ اپنے آقا کے دماغ سے سوچتا ہے، تو اعتماد سے خالی انسان کے لئیے پورا معاشرہ ہی اسکا آقا ہوتا ہے اور وہ ساری زندگی دوسروں پر انحصار کرتے ہی اپنی یہ قیمتی زندگی ضائع کر دیتا ہے۔ جو انسان زرا سی مشکل میں بھی دوسروں کی طرف ہمدردی طلب نگاہوں سے دیکھتا ہو ایسا انسان معاشرے کے درندوں کے لئیے تر نوالہ ہوتا ہے۔ کمزور افراد کا اعتماد حاصل کرنے کا سب سے بہترین ہربہ ہمدردی ہوتی ہے۔ ایسے کمزور افراد سے جو بھی زرا سی ہمدردی دکھاتا ہے یہ کمزور افراد اپنا پورا اعتماد اسکی گود میں ڈال دیتے ہیں، اور پھر انجام وہ ہی ہوتا ہے کہ ایسے کمزور افراد جس پر اندھا اعتماد کرتے ہیں وہ اپنے عمل سے ثابت کر دیتا ہے کہ آپ واقعی اندھے ہیں۔

This entry was posted in زمرے کے بغیر. Bookmark the permalink.

تبصرہ کریں