ناقابل فراموش پندرہ دن


شروع الله کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم کرنے والا ہے، ہر انسان کو الله سے یھ دعا کرنی چاہیے کے اے پاک پرور دیگار مجھ سے اس مختصر سی زندگی میں کم سے کم کوئی ایک کام ایسا ضرور لے لے جس کے کرنے سے تو راضی ہو جائے اور اس کام کو کرنے سے میرے قلب میں یھ احساس جاگے کے ہاں کچھ کر کے جا رہا ہوں دنیا سے کچھ لے کے جار رہا ہوں دنیا سے مرنے کے بعد بھی احساس ہو کے ہاتھ خالی نہیں ہیں، پانچ سال گزر گئیے اس دل دوز اندھو ناک واقع کو بیتے مگر مجھے کل کی سی بات لگتی ہے.

آٹھ اکتوبر دو ہزار پاچ پاکستان کی تاریخ کا ایک اور سیاہ دن ، جیسے ہی زلزلے کی خبر ملی دل پھٹ کے رہ گیا جیسے جیسے خبریں آتی رہیں اداسی بڑھتی گئی اگلے دن تک زلزلے کی سنگینی کھل کر سامنے آچکی تھی، میں نے اپنی ویلفئیر سوسائیٹی کا ہنگامی اجلاس بلایا تمام ممبرز کے سامنے ایک ہی بات رکھی کے فوری طور پر ٹیم تشکیل دی جائے اور جس کے پاس جو کچھ بھی ہے لے آئے ، ہمارے پاکستانی بھائیوں پر کڑا وقت ہے یہ امتحان ہے الله کا یا عذاب ہے اس سے ہمیں کوئی سروکار نہیں، جو بھی الله کی رضا چاہتا ہے تو وہ سب کچھ نچھاور کر دے جو وہ ممکنہ حد تک کر سکتا ہے الله کی رضا حاصل کرنے کا اس سے نادر موقع شاید پھر ہماری زندگی میں نھ آئے ، الله تعالی کے اپنے حساب ہیں الله خیر سے شر اور شر سے خیر نکالنے والے ہیں، واقع ایک ہوتا ہے مگر اس ایک واقع سے کوئی برباد اور کوئی آباد ہوتا ہے، جنگ عظیم دویم میں لگتا ہی نھ تھا کے یہ جنگ کہیں جا کر رکے گی بھی،لگتا تھا دنیا کی تباہی کا وقت آگیا کوئی کسی کی سننے کوتیار نہ تھا سب کے سر پر صرف ایک ہی جنون سوار تھا کے مار دو یا مر جاؤ، میرے الله نے پھر وہاں شر سے خیر نکالا، امریکا نے جاپان کے شہروں پر ایٹم بم برسا دیئے جو انسانی تاریخ کا بد ترین واقع ہے، مگر اس شر سے خیر یوں نکلا کے اس واقع کے بعد سب کے سر سے جنگ کا بھوت اتر گیا لاکھوں جاپانیوں کی قربانی رنگ لائی اور لاکھوں کی قربانی کی وجہ سے کروڑوں اور اربوں کا بھلا ہو گیا اور جنگ رک گئی، یھ زندہ مثال ہے شر سے خیر نکالنے کی.

موضوع کی طرف لوٹتے ہیں، اس زلزلے سے جہاں لاکھوں لوگوں کی بربادی ہوئی وہیں لاکھوں لوگوں کی مستقل آبادی بھی ہوئی، یکجہتی کی ایسی مثال کم سے کم میں نے تو اپنی زندگی میں نہیں دیکھی تھی، ویلفئیر سوسائیٹی کے باہر کیمپ لگا دیا گیا جس کے پاس جو تھا وہ لے آیا ہر ممکنہ حد تک لوگوں نے امداد دی، کپڑے دوائیاں کھانے پینے کا سامان کیش وغیرہ، لوگوں نے دن رات ایک کر کے سامان پیک کروایا، فیصلہ ہوا کے ہم یھ سارا امدادی سامان خود لے کر متاثرہ علاقوں میں جائیں گے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے بھائیوں میں تقسیم کریں گے اور جس حد تک بھی ممکن ہوا ان کے دکھ میں شریک ہونگے.

بارہ اکتوبر کو پانچ ٹرکس کے سامان کے ساتھ جس کی مالیت تقریبن پچاس لاکھ بنتی تھی، بائیس لوگوں کا یھ کارواں روانہ ہوا ہماری روانگی کا عجیب منظر تھا سینکڑوں کی تعداد میں لوگ جمع تھے روتے جاتے تھے اور ہم سے گلے ملتے جاتے تھے، ہم بائیس لڑکوں نے ایک جیسا لباس پہنا ہوا تھا جسے ڈانگری کہتے ہیں اسکی پوکیٹس بہت بڑی بڑی ہوتی ہیں ہم سے ملنے والے لوگ ہماری پوکیٹس میں پیسے ڈالتے جاتے تھے اور اپنی قیمتی دعاوں سے نوازتے جاتے تھے، ہم سب ٹرکس پر سامان کے اوپر سوار تھے کے کہیں اور جگھ ہی نہیں تھی، راستے میں ایک جگھ پڑھاؤ کیا اور سب نے اپنی اپنی پوکیٹس خالی کیں اور جب رقم گنی گئی تو ہم سب ہی حیران رہ گیے کے چلتے چلتے بھی لوگوں نے ہماری پوکیٹس میں تقریبن پانچ لاکھ کی رقم ڈال دی تھی، راستے میں بارش بھی ہوئی دھوپ دھول مٹی سردی یھ سب چیزیں ہماری ہمسفر تھیں تین دن کے تھکا دینے والے سفر کے بعد ہم بالا کوٹ پہنچے وہاں پہنچے تو منظر ہی عجیب تھا وہ حسین وادی قبرستان میں تبدیل ہوچکی تھی، منظر کچھ ایسا تھا کے زمین اپنی جگھ سے کھلی پورا شہر اپنی گود میں لیا اور واپس اپنی جگھ پر آگئی ، چار منزلہ خوبصورت عمارتیں زمین سی لگی ہوئی تھیں، یعنی چھت تک زمین میں دھنس چکی تھیں، زمین کی سطح پر صرف انکی چھتیں نظر آرہی تھیں، ابھی ہم سوچ ہی رہے تھے کے کیا کریں کہاں سے شروع کریں کے اچانک لوگوں کا جمم غفیر ہمارے امدادی سامان پر ٹوٹ پڑا ہم حیران ہوئے کے یھ کون لوگ ہیں کیا یھ وہ لوگ ہیں جن کے عزیز ماں بہن بھائی بچے اس سانحھ میں شہید ہوئے ہیں، بہت جلد ہم پر یھ عقدہ کھل گیا کے یہ وہ لوگ نہیں ہیں یہ لٹیرے ہیں جو آس پاس کے علاقوں سے لوٹ مار کرنے آئے ہوئے ہیں، مانسہرہ وغیرہ سے، ہمارا دل یھ سوچ کر ہی عجیب سا ہوگیا کے کیا اتنے بڑے واقع کے بعد بھی کوئی انسان لوٹ مار کا سوچ سکتا ہے ؟

ہم نے فوری طور پر پاکستان آرمی کی مدد لی اور اپنا سارا سامان ایک محفوظ مقام پر ایک تین منزلہ عمارت کی چھت جو کے زمین سے لگی ھوئی تھی اس پر اتروا لیا، مجھے آج تک یاد ہے میں بہت بیدردی سے پیش آیا تھا ان لٹیروں کے ساتھ میرا بسس نہیں چل رہا تھا کے میں ان درندوں کو جان سے مار دوں جو بجائے اپنے بھائیوں کی مدد کرنے کے الٹا ان کے زخموں کو نوچ رہے تھے، ہمارے پہنچنے سے پہلے تک کچھ ایسا تھا کے لوگ امدادی سامان لاتے اور روڈ پر ٹرک کھڑا کر کے جیسے لنگر اچھال اچھال کر تقسیم کیا جاتا ہے ٹھیک ویسے ہی لوگ اس امدادی سامان کو کوئی بوجھ سمجھ کر ان لٹیروں میں تقسیم کر کے چلے جاتے تھے اور سمجھتے کے ہم نے مستحقین میں امداد تقسیم کر دی، جب ہم نے یھ منظر دیکھا تو ہم نے سب کو منع کیا ایسا کرنے سے اور ایک نیا نظام وہاں متعارف کروایا ہم نے وہاں باقائدہ کیمپ لگایا ہمارے ورکر خود متاثرین کے گھر پر جاتے انکی دل جوئی کرتے اور انھیں ایک اعداد پرچی دستخط کے ساتھ دے کر آتے تو شام تک یا دوسرے روز ان کے گھر سے کوئی بھی خود وہ پرچی لے کر ہمارے کمپ پھ آجاتا اور جو کچھ بھی حسب توفیق ہم اسکی مدد کر سکتے تھے کرتے، یھ طریقہ وہاں سب نے اپنا لیا اس طرح سب کا ضمیر مطمئین تھا کے لوگوں کی دی ہی امانت صحیح جگھ پہنچ رہی ہے.

وہ پندرہ دن میری پوری زندگی پر بھاری ہیں آج تک بھی، وہ بچوں کا اسکول یاد آتا ہے جو پورا کا پورا مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا اونچائی یا پہاڑی پر ہونے کی وجہ سے وہ زمین میں تو نہیں دھنسھ تھا مگر زلزلے سے اسکول کی چھت اور دیواریں گرنے کی وجہ سے تقریبن تین سو پچاس بچے رضا الہی ہوگئیے تھے، میں اور میرے ساتھی پاکستان آرمی کے ساتھ مل کر ملبہ ہٹا رہے تھے اور ایک کے بعد ایک معصوم بچے کی لاش نکل رہی تھی، خدا کسی پر ایسا وقت نھ لائے ہم سب روتے جاتے تھے اور لاشیں نکالتے جاتے تھے، میرے ہاتھ اس وقت بھی کانپ رہے ہیں یہ سب لکھتے ہوئے،ہم سے دیکھا نہیں جا رہا تھا آج بھی یاد کر کے سہا نہیں جاتا تو ان لوگوں پر کیا گزری ہوگی جن پر یھ قیامت ٹوٹی ؟

ایک کلاس سے کسی بچے کی ایک کاپی ملی جس پر معصوم ہاتھوں نے ھوم ورک کیا ھوا تھا، صفحے پلٹتے پلٹتے ایک تحریر پر جیسے میری سانس ہی رک گئی کاپی  کے صفحے پر اس معصوم نے ایک شعر تحریر کیا ہوا تھا. ہزاروں منزلیں ہونگی ہزاروں کارواں ہونگے، نگاہیں ہم کو ڈھونڈیں گی نجانے ہم کہاں ہونگے ؟ . کونسی آنکھ تھی جو اس شعرکو پڑھنے کے بعد اشکبار نہیں تھی.

یھ سخت ترین سردیوں کے دن تھے بالا کوٹ میں ٹمپریچر مائینس تین اور مائینس چار تک چلا جاتا تھا، تقریبن ہر رات ہی بارش ہوتی تھی ہم کھلے آسمان کے نیچے پڑے ہوتے تھے ہمارے پاس جتنی بھی ترپالیں تھیں وہ ہم نے سامان پر ڈھکی ھوئی تھیں کے کہیں سامان گیلا نہ ہو جائے جب بھی بارش ہوتی ہم کسی ٹوٹی ھوئی دکان یا ٹوٹے ھوئے مکان میں پناہ لینے کی کوشش کرتے جان جانے کا خدشہ اپنی جگھ تھا کے ہر رات آفٹر شاکس آتے تھے جس جگھ بھی پناہ لیتے وہ پہلے سے ہی تباہ حال ھوتی یھ ڈر رہتا کے اتنی بوسیدہ ھے ہلکے سے جھٹکے سے گر جائے گی ایک ایک رات میں آٹھ دس بار زلزلے کے جھٹکے آتے جیسے ہی زلزلہ آتا ہم سب بھاگ کر میدان میں آجاتے اور درود شریف کا ورد شروع کر دیتے .

مجھے اندازہ ہے کے پوسٹ بہت طویل ہوگئی ہے مگر میرا دل چاہ رہا ہی آج آپ کے ساتھ وہاں بیتا ہر ہر لمحہ شئیر کروں، کھانے کے لیے وہاں کچھ نہیں تھا پانی جو ہم یہاں سے سامان کے ساتھ منرل واٹر لے کے گیے تھے وہ ہی استعمال کرتے تھے، یہاں تک کے استنجے کے لیے بھی منرل واٹر ہی استعمال کیا جاتا تھا کیوں کے پانی وہاں تھا ہی نہیں،کھانے میں ہم بسکٹس کھاتے تھے آخری دن ھم نے اندازے کے مطابق وہ رقم اپنی اپنی پاکٹ سے اس امداد میں شامل کردی تھی کے جتنے کے ھم نے بسکٹس اور پانی اس امدادی سامان سے اپنے استعمال میں لئیے تھے ، پاکی ناپاکی کی کوئی تمیز باقی نہیں بچی تھی نھ سحری اور نہ افطار کے لیے کچھ ھوتا تھا اسلیے زندگی میں پہلی بار روزے ترک کرنا پڑے سب کو، ایک روز میں ایک مکان کا ملبہ صاف کر رہا تھا تو ایک بہت ہی خوبصورت بچھ جسکی عمر8 سال رہی ہوگی وہ میرے قریب آیا میں نے کام چھوڑ کر اس بچے کو گود میں لے لیا میرے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی اس بچے نے ایک ایسی بات کہی کے پھر میں اس سے کچھ نہ پوچھ سکا ، اس بچے نے کہا میں یتیم ہوگیا اسکی معصوم زبان سے لفظ یتیم سن کر میرا دل دھل گیا میں کچھ بھی نہ کہ سکا بس اس بچے کو خود سے لپٹا کے روتا رہا.

ایک روز ایک آدمی ہمارے کیمپ میں آیا اور کہنے لگا یہاں زمین پر جو لوگ ہیں انھیں تو سب امداد دے رہے ہیں مگر اوپر جو پہاڑوں پر لوگ ہیں انھیں کوئی نہیں پوچھ رہا وہاں تو ابھی تک آرمی بھی نہیں پہنچی ہے آپ لوگ ان کی لئے بھی تو کچھ کریں وہاں ہر گھر میں آٹھ آٹھ دس دس اموات ھوئی ہیں یہ سن کر ہم نے فوری طور پھ ایک ٹیم تشکیل دی جو ٨ لڑکوں پر مشتمل تھی جن میں میں بھی شامل تھا، ہم نے تقریبن چار لاکھ روپے کیش اور جتنا سامان ہم اٹھا سکتے تھے اٹھایا اور صبح تقریبن ١١ بجے اس آدمی کے ساتھ چل دئیے ہم سب، سارا دن پہاڑ پر چڑھائی چڑھنے کے بعد رات ٩ بجے ہم اس مقام پھ پہنچے جہاں وہ ہمیں لے جانا چاہتا تھا، رات ہم نے کیمپ میں گزاری صبح یہ دیکھ کے حیران رہ گئیے کے ہم اتنی اونچائی پھ تھے کے ہیلئ کاپٹرز بھی ہم سے بہت نیچے کہیں پرواز کر رہے تھے، قصّہ مختصر صبح ہم گھر گھر گئیے نیچے کی طرف واپس اتے رہے ہر گھر میں جاتے گھر کیا تھے سارے ہی مٹی کے ڈھیر تھے، ہر گھر کے آگے آٹھ دس قبریں بنی ھوئی تھیں فاتح پڑھتے اور جو بھی مناسب کیش دے سکتے تھے اور جو سامان تھا وہ ہم بانٹتے ہوئے رات تک واپس اپنے کیمپ میں آگئیے، ایک بات اور بتاتا چلوں کے وہاں جتنا کام میں نے کافروں کو کرتے دیکھا اتنا شاید ہم بھی نہیں کر پا رہے تھے، انگلینڈ جرمنی ہالینڈ امریکا کوریا چائینھ اور پتھ نہیں کہاں کہاں سے گورے آئے ھوئے تھے اور پوری تن دیہی کے ساتھ ہر طرح سے خدمات میں لگے ھوئے تھے وہ لوگ، وہاں میرا نظریہ بدلا کافروں کے بارے میں کے سارے کافر برے نہیں ہوتے، ہماری ٹیم میں دو ڈاکٹر بھی تھے جو زخمیوں کی مرہم پٹی اور فرسٹ ایڈ دینے کے فرائض انجام دے رہے تھے.

کہنے کو اور بھی بہت کچھ ہے مگر پوسٹ بہت طویل ہوگئی ہے اکتا جائیں گے آپ لوگ، آخری روز ہم نے ایک اور لاش نکالی جس گھر کی چھت پھ ہمارا کیمپ لگھ ھوا تھا اس گھر میں بھی ایک لاش تھی وہ لاش ہم نے آخری روز نکالی چھت میں سوراخ آرمی نے کر دیا تھا میں اور میرے دو دوست رومال میں کافور بھر کر ناک پھ رکھ کر نیچے اترے اس قدر بدبو تھی کے لگتا تھا دم ہی نکل جائے گا لاش کو جس جگھ سے پکڑتے گوشت ہاتھ میں آجاتا جیسے تیسے کر کے اسے اپر لائے چارپائی پھ ڈالا اور ایک گڈہ جو پہلےہی کھود دیا گیا تھا اس میں ڈال کر تدفین کر دی، ہماری واپسی شاید جلدی ہوجاتی مگر ہوا یہ کے جو بھی لوگ آتے سامان لے کر وہ اپنا سامان ہمارے کیمپ میں اتار کر چلے جاتے یہاں تک کے ایم کیو ایم والوں نے بھی ہمارے ہی کیمپ میں اپنا سامان رکھا سب ہمارے طریقہ کار سے مطمئین تھے اسلیے ہمیں ہی دے جاتے تھے، پندھروے روز ہمارا سامان ختم ہوچکا تھا آج ہمیں یہاں سے رخصت ہونا تھا وہ منظر بھی عجیب تھا تمام لوگ ایک دوسرے سے گلے مل کر دھاڑیں مار مار کے رو رہے تھے، کہا سنا معاف کروا رہے تھے، ایسی یکجہتی میں نے اپنی پوری زندگی میں تو نہیں دیکھی تھی پاکستانیوں میں، بس وہ ہی ایک موقع تھا جب میں نے پاکستانیوں کو متحد دیکھا تھا نہ کوئی قومیت نہ کوئی مسلک نہ رنگ نہ نسل کچھ نہیں بس سب مسلمان اور پاکستانی بن کر خدمت میں لگے تھے کاش وہ جذبہ پھر لوٹ آئے کاش، میری دعا ھے کے بغیر کسی زلزلے کے ہی وہ جذبہ پھر سے لوٹ آئے ورنہ اب تو ایسا ہی لگتا ہے کے یکجہتی کے لیے شاید ہم پھر کسی ویسے ہی زلزلے کے منتظر ہیں.

This entry was posted in ہمارا معاشرہ. Bookmark the permalink.

29 Responses to ناقابل فراموش پندرہ دن

  1. عثمان نے کہا:

    میرے بھائی
    میری بات کا برا نہیں منائیے گا۔ ایک دوست اور قاری کی حیثیت سے نیک مشورہ دے رہا ہوں۔

    اتنی لمبی تحریر ایک ہی پیراگراف میں نہیں لکھتے۔ تحریر کو پیرا گراف میں توڑا جاتا ہے جب جب بات کا رخ نئی طرف جا رہا ہو۔ آپ نے اپنے بلاگ پر اب تک جتنی بھی تحاریر لکھی ہیں وہ سب یک اقتباسی ہیں۔ پہلے تو کام چل گیا تھا کہ تحریر چھوٹی تھی۔ لیکن اتنی لمبی تحریر ایک ہی پیراگراف میں پڑھنا محال ہے۔

    دوسرے بلاگروں کی طرف دیکھیے کہ وہ کس طرح لکھ رہے ہیں۔ امید ہے آپ کو میری بات سمجھ آ چکی ہو گی اور آپ میرے دوستانہ مشورے کا برا نہیں منائیں گے۔

  2. دوست نے کہا:

    میں بھی چار سطور پڑھ کر نکل رہا ہوں، تحریر بہت لمبی ہے اس لیے۔

  3. مجھے تو دلچسپ لگی مگر لائنوں کے درمیان فاصلہ بہت کم ہے اس لئے الجھن ہوتی ہے

  4. محمودالحق نے کہا:

    اللہ تعالی آپ کو جزائے خیر دے ۔ مصیبت اور پریشانی کے عالم میں خلق خدا کی خدمت کرنا عمل صالح ہے ۔ بہت دلدوز مناظر کا سامنا کیا جن کے اپنے ہاتھوں سے بچھڑ گئے تھے ۔ میرے ہم زلف اپنی بیوی اور تین بچیوں کے ساتھ اسی زلزلہ میں مارگلہ ٹاورز اسلام اباد گرنے سے جاں بحق ہوئے ۔

    • fikrepakistan نے کہا:

      محمودالحق صاحب دل کی گہرائی سے افسوس ھوا آپ کے ہم زلف خواہر نسبتی اور انکے بچوں کا جان کر، اللہ اس سب کو اپنے جوار رحمت میں اعلی سے اعلی مقام عطا فرمائیں، آمین۔

  5. emran نے کہا:

    تحریر طویل تو ہے لیکن موضوع کے اعتبار سے نہایت چھوٹی ہے۔ وہ بہت کڑا وقت تھا اور پاکستانیوں نے اس مشکل وقت کو بخوبی نبھایا۔ اللہ ھم کو ایسی مزید آزمائشوں سے دور رکھے۔ آمین۔

  6. عیم لام میم نے کہا:

    تحریر واقعی طویل ہے۔۔ آپ اس کو دو یا زیادہ اقساط میں چھاپ سکتے تھے، اس طرح پڑھنے والوں کی دلچسپی برقرار رہتی ہے۔
    جہاں تک تحریر کا تعلق ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔ میری آنکھیں پڑھتے ہوئے نم ہو گئیں تو آپ کا کیا حال ہوا ہوگا۔۔۔ اللہ تعالیٰ تمام مرنے والوں کی مغفرت فرمائے اور جنہوں نے زندوں کو مرنے سے بچایا ان کو اس کا اجر عطا فرمائے۔آپ کی دعا پہ آمین ثم آمین۔

    • fikrepakistan نے کہا:

      آئیندہ آپکی تجویز پھ عمل کرونگا۔ دعاوں کے لئیے بہت بہت شکریھ، آپ نے بجا فرمایا میں آج بھی وہ مناظر یاد کرتا ھوں تو اپنے آنسووں پھ اختیار نہیں رہتا۔

  7. Muhammad Qader Ali نے کہا:

    السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

    بہت اچھی تحریر ہے اور جس بات کو پہنچانا تھا آپ نے پہنچا دیا۔
    قوم کی محبنتیں ایک دوسرے کے لیے اپنی جگہہ بجاہیں۔ کچھ لوگوں کے علاوہ باقی دوسرے لوگ یا تو سیاسی تھے یا کسی غیر ملکی مشنری سے تعلق تھا
    وہ بچہ اسکا کیا قصور تھا ابھی تو وہ بالغ بھی نہیں ہوا۔
    ہم سب مسلمان ہیں کچھ قصور میرا اور کچھ قصور ہمارے دوسرے بھائیوں اور بہنوں کا ہے مسلمان کی سرزمین پر جب برائیاں ہونگی تو آفات آئنگی۔ اور یہ آفت جو زلزلے کی شکل میں کشمیر اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں آئی تھی وہ تو اللہ پاک نے رحم کرکے سیمپل دکھایا ہے تاکہ ہم مسلمان اپنے آپ کو ٹھیک کرلیں۔
    ہمارے پاس اللہ کی کتاب ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ اور حقایت صحابہ کرام رضی اللہ عنہما اجمعین ہے پیار و محبت کا جو نمونہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سکھا گئے اس کا عمل و طریقہ انصار اور مہاجرین سے حاصل ہوتا ہے۔
    جب بھی کوئی مصیبت آتی تھی تو اللہ کو پکارتے تھے جیساکہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی کے زمانے میں بارش کے لیے ڈائرکٹ اللہ کو پکارا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چاچا عباس رضی اللہ عنہہ سے کہا جو اس وقت سب سے بوڑھے تھے نماز پڑھاؤ اور اللہ پاک سے دعاء کرو۔ اس وقت کسی نے کسی مزار والے کو نہیں پکارا ۔ ڈائرکٹ اللہ پاک کو فریاد کی۔ اگر ہم بھی اپنی غلطی پر پشیمان ہوکر
    حالصتا اللہ پاک کی طرف رجوع کریں گے تو ان شاء اللہ اللہ پاک ضرور سنے گے۔
    اور قبول کریں گے۔
    آج ہم سب نام کے مسلمان ہیں مصیبتیں جو پیش آرہی ہیں وہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے گلف کے اندر لوگوں میں شرک جیسی برائی نہیں ہے کیسے بھی ہوں لیکن اللہ کے ساتھ کسی بھی طرح شرک نہیں کرتے۔ کوئی مزار گلف میں نظر سے نہیں گزرتا۔ کوئی قبہ ، کوئی پیر نہیں کوئی مرید نہیں، تبلیغ کا کام اپنی جگہہ حکومتی طورپر مختلف پروگرامات غیر مسلموں کے لیے کرتے ہیں اور انفرادی طورپر بھی لوگ کوشش کرتے ہیں مجھے یاد ہے ایک ہندو لڑکے کو میں اوقاف کلمہ پڑھانے لے گیا تھا وہاں جاکر اتنی خوشی ہوئی ماشاء اللہ کتنے لوگ آتے ہیں کلمہ پڑھنے۔ اب اللہ کی رحمتیں اور برکتیں گلف والوں پر نہیں ہونگی تو کس پر ہونگی۔
    جو سب سے اچھی بات میں یہ جانتا ہوں کہ نماز کا وقت کہاں پر بھی ہو اور لوکل کیسا بھی ہو۔ بس حی الصلاۃ کی آواز پر فلاح پانے کے لیے مسجد میں داخل ہوتا ہے یا مسجد نہ ملے تو خود انفرادی یا جماعت قائم کرکے نماز پڑھتے ہیں۔

    لیکن پاکستان میں آزان کی بڑی عزت ہے ماشاء اللہ جب تک آزان ہورہی ہے الحمد اللہ بہت عزت سے سنتے ہیں لیکن اس کے بعد کتنے مسلمان مسجدوں میں ہوتے ہیں۔ یہ مجھے کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے سروں پہ سے مصیبتیں نکل جائے صرف چاہنے سے نہیں ہوتا عمل کی ضرورت ہے۔ مسجدوں کو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہما اجمعین کے دور کی طرح بھرنا ہوگا۔ محبتیں بھی ہوں تو صرف اللہ کے خاطر ورنہ کوئی فائدہ نہیں۔ تیار رہیں ابھی تو سیمپل ہے اللہ نہ کرے یہ مصیبتیں لاہور، کراچی، پشاور اور اس جیسے گنجان علاقوں میں آئے تو کیا ہوگا، اگر امداد لانے والے ہلاک ہوجائنگے تو یا وہ بھی اس زد میں ہونگے تو کیا ہوگا۔

    شکر کریں جو ہمارے پاس ہے یہ نہ ہوکے صبر کرنا پڑ جائے اللہ کو کثرت سے صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں سے جس کو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہما اجمعین نے پورا کیا تھا اس طریقے سے پورا کریں۔ اللہ تعالی کے بارگاہ میں ہم خالصتا اسکی کو رب مانتے اور جانتے ہوئے دعاء کرتے ہیں کہ اللہ پاک میرے پاکستان کے لوگوں کو مسلمان خالص کر، اور توحید پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرما۔
    آمین۔
    معاف کرنا زرا پاکستان اور مسلمانوں کی برے حالا ت کی وجہ سے جزباتی ہو گیا تھا میں بھی پاکستانی مسلمان ہوں۔ میرے اندر بھی آپ لوگوں کے لیے زبردست محبت ہے تسلی رکھیے اللہ غفور الرحیم ہے وہ سب کچھ جانتا ہے جو میرے دل میں ہے۔
    والسلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

  8. طالوت نے کہا:

    ہاں بھائی کڑا وقت تھا ۔ کچھ کی کایا پلٹی کچھ خود پلٹ گئے ۔
    وسلام

  9. عثمان نے کہا:

    بہت شکریہ

    خوب بیان کیا ہے!

  10. the Success Ladder نے کہا:

    Wonderful site and theme, would really like to see a bit more content though!
    Great post all around, added your XML feed! Love this theme, too!

  11. آپ کی تحرير کردہ دعا مجھ بہت پسند ہے کہ يا اللہ مجھ سے ايسا کام لے لے جس سے تو راضی ہو جائے

  12. Ansoo نے کہا:

    JazakAllah muhtaram, partay huway ankhin naam hogain Allah ham sab musalmanon ko hedayat daee or khedmat e khalq ka moqa ata karay ameen , .mujhay pata he nahin Chala k aap ki post itni lambi hai kab shorow howee kab khatam hoee, bohutacha likhtay hain aap 

تبصرہ کریں