نام نہاد اشرف المخلوقات بمقابلہ مہذب دنیا کے کتے۔


ایک معاشرہ جانورں کو انسانیت سے قریب کر رہا ہے، دوسرا معاشرہ انسانوں کو جانوروں میں تبدیل کر رہا ہے، دنیا میں کچھہ بھی بے سبب نہیں ہوتا، کوئی اگر آج سورج کو شٹ اپ کال دے رہا ہے تو اسکی بھی وجہ ہے، اور کوئی اگر آج اپنی ہی زمین پر اپنے ہی جانوروں سے بھی بدتر سیاسی اور مذہبی رہنماوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا سیلانی اور ایدھی کے مفت دسترخوان سے فیضیاب ہورہا ہے تو یہ بھی بے سبب نہیں ہورہا اور اس بات میں کوئی شائبہ نہیں کے انشاءاللہ انکی آنے والی نسلوں کا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا۔

یہ کیسے ممکن ہے کے ایک قوم دن رات ایمانداری کے ساتھہ محنت کرے اللہ کے فرمان کے مطابق علم حاصل کرے غور و فکر کرے تحقیق کرے، اپنا آج اپنی آنے والی نسلوں کے کل پر قربان کر دے۔ اور ایک قوم جو علم کے معنیٰ ہی بدل دے اسے دینی اور دنیاوی علم میں تبدیل کردے، اور پھر دنیاوی علم کو ہنر کہہ کر لفظ علم کی توہین کرے، اپنی حالت بدلنے کے لئیے تدبیر کے بجائے صرف دعاوں کا سہارا لے، معجزوں کا انتظار کرے، چلے چالوں اور منتوں میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرے، جدیدیت کو کفر سمجھے، اجتہاد کے دروازوں پر قفل ڈال کر چابی سمندر برد کر دے، جس معاشرے میں عالم وہ کہلاتا ہو جسے جدید علوم کے نام تک نہ پتہ ہوں، سیاسی و مذہبی رہبر وہ کہلاتا ہو جسکی منزل صرف اور صرف پیسہ ہو، دھرنے، ریلیاں، احتجاج، ہڑتالیں، جن بندروں کی کوالیفیکیشن ہو۔

تو ایسے جانورں کے ہجوم اور ایک ایسی قوم کا جو سیاروں سے معدنیات نچوڑ کے لارہی ہو ان دونوں کا حال اور مستقبل ایک جیسا کیسے ہوسکتا ہے؟۔ اس معاشرے کے شہری کس طرح کی مہذب زندگی جی رہے ہیں اس پر تو بات کرنا ہی فضول ہے، چلیں انکے کتوں سے موازنہ کرتے ہیں اپنے معاشرے کے غیور با شعور ہجوم کی زندگی کا۔

یورپ میں کتوں سے محبت ایک جنون کی حیثیت رکھتی ہے، اور وہ لوگ اس جنون میں ہمارے مجنوں نما عاشقوں سے بھی آگے نکل جاتے ہیں، محبت محبت ہوتی ہے انسان سے کی جائے یا جانور سے، کتا بھی اللہ کی ہی مخلوق ہے اسلئیے اللہ کی مخلوق سے محبت کرنا مثبت سوچ کی علامت ہے، کچھہ لوگوں کے خیال میں اسلام میں کتے کو گھر میں رکھنا نا پسندیدہ قرار دیا گیا ہے، یہ محض ایک رائے ہی ہے، پھر بھی  حفاظت کی نیت سے گھر کے باہر یا کسی الگ تھلگ جگہ پر پالا جاسکتا ہے۔

یورپ میں اسطرح کا کوئی نظریہ نہیں اسلئیے وہ لوگ کتوں کو اپنے گھر کے ایک فرد کی طرح ہی رکھتے ہیں ساتھہ سلاتے ہیں ساتھہ کھلاتے ہیں غرض یہ کہ محبت کرتے ہیں تو پھر محبت کا حق بھی ادا کرتے ہیں، جائزہ لیتے ہیں کے وہ کیسے حق ادا کرتے ہیں کتوں کی محبت کا اور انسان تو انسان انکے کتے کسطرح سے ہمارے انسانوں سے بھی زیادہ بہترین زندگی گزار رہے ہیں۔

کتوں کے قیمتی غذاء کی مثال دینے کے لئیے محض تین تصویریں ہی لگائی ہیں ان میں سے ہر پیکٹ کم از کم پچاس ڈالر کا ہے، جو انکے کتوں کی چار سے پانچ دن کی غذا ہوتی ہے، یعنی ایک مہینے کی غذاء بنی تقریباَ چھہ پیکٹس، چھہ پیکٹس کو اگر پچاس ڈالر سے ضرب دیں تو تین سو ڈالر اور اگر اسے چھیاسی سے ضرب دیں تو یہ تقریباَ چھپیس ہزار روپے ماہوار بنتے ہیں۔ کتوں کے ہر روز نہلایا بھی جاتا ہے، پیمپر بھی باندھے جاتے ہیں انکے، ایک شیمپو کی قیمت دس ڈالر سے شروع ہوکر سو ڈالر اور اس سے بھی زیادہ ہوتی ہے، نیچے دی گئی تصویروں میں جو شیمپو ہے اسکی قیمت پچاس ڈالر ہے، یعنی ہمارے تقریباَ چار ہزار روپے۔ کچھہ تصویریں انکے کتوں کے گھروں کی بھی ہیں جنکی بناوٹ اور خوبصورتی دیکھہ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے کے انکے کتے کیسی شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔
        

یہ ہے وہ معاشرہ جو جانورں کو انسانیت سے قریب کر رہا ہے، وہ جانورں کو ٹرینگ دے کر ان سے وہ وہ کام لے رہے ہیں جو ہمارے جیسے معاشرے میں نام نہاد اشرف المخلوقات سے نہیں لئیے جارہے۔ اب دیکھئیے کے  ہمارے مستقبل کے آئن اسٹائن کیا کر رہے ہیں؟۔

یہ ہوتا ہے فرق حقیقت اور جذباتیت میں، چونسٹھہ سال سے روٹی کپڑا اور مکان کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں اور مذہب کے نام پر کاروبار کرنے والے درندے مذہبی رہنماوں نے یہ سب کچھہ دیا ہے پاکستانیوں کو۔

انکے ایک کتے کا ماہانہ خرچہ تقریباَ پاکستانی تیس سے پینتیس ہزار بنتا ہے، جبکہ ہمارے پاکستان میں ان انسان نما جانوروں کی  کم سے کم تنخواہ سات ہزار رکھی گئی ہے، سات ہی کیا پندرہ بیس ہزار کمانے والا بھی کیا تیر مار لیتا ہے جو بیس ہزار کما رہا ہے وہ بھی انکے کتے سے بد تر زندگی گزارنے پر مجبور ہے، تف ہے ایسے جانوروں پر کے جانتے بھی ہیں کے ہمارے ان سیاسی اور مذہبی رہنماوں نے ہمیں مہذب دنیا کے کتوں سے بھی بدتر زندگی دی ہوئی ہے جینے کے لئیے پھر بھی اپنے ہی قاتلوں کو سروں پر بٹھا کر اعوانوں تک چھوڑ کر آتے ہیں.

حدیث ہے کے مومن ایک بل سے دو بار نہیں ڈسہ جاسکتا۔ مگر یہ ہر روز ڈسے جاتے ہیں، کبھی مذہب کے نام پر، کبھی قومیت کے نام پر، کبھی جہاد کے نام پر، کبھی لسانیت کے نام پر، کبھی فرقہ پرستی اور مسلک پرستی کے نام پر، مگر پھر بھی ان جانوروں کو ہی اپنا خدا بنائے رکھتے ہیں، کوئی جلسہ ہو، کوئی دھرنا ہو، کوئی ریلی ہو، کوئی نام نہاد احتجاج ہو، یہ جانور بڑھہ چڑھہ کر حصہ لیتے ہیں، اپنے ہی قاتلوں کے ہاتھہ مظبوط کرتے ہیں۔

میری دعا ہے کے اللہ پاکستانیوں کو مہذب دنیا کے کتوں کے برابر کے حقوق ہی دے دے انکے کتوں کے برابر سہولتیں دے دیں۔ کیوں کے جو اس قوم کے اور اس قوم کے نام نہاد سیاسی اور مذہبی رہنماوں کے رویے ہیں جو گھٹیا سوچ ہے وہ تو انہیں کم از کم مہذب دنیا کے انسانوں کے برابر نہیں آنے دے گی۔

ایک معاشرہ جانورں کو انسانیت سے قریب کر رہا ہے، دوسرا معاشرہ انسانوں کو جانوروں میں تبدیل کر رہا ہے، دنیا میں کچھہ بھی بے سبب نہیں ہوتا، کوئی اگر آج سورج کو شٹ اپ کال دے رہا ہے تو اسکی بھی وجہ ہے، اور کوئی اگر آج اپنی ہی زمین پر اپنے ہی جانوروں سے بھی بدتر سیاسی اور مذہبی رہنماوں کے ہاتھوں کھلونا بنا ہوا سیلانی اور ایدھی کے مفت دسترخوان سے فیضیاب ہورہا ہے تو یہ بھی بے سبب نہیں ہورہا اور اس بات میں کوئی شائبہ نہیں کے انشاءاللہ انکی آنے والی نسلوں کا انجام بھی ان سے مختلف نہیں ہوگا۔

This entry was posted in ہمارا معاشرہ. Bookmark the permalink.

23 Responses to نام نہاد اشرف المخلوقات بمقابلہ مہذب دنیا کے کتے۔

  1. pakcom نے کہا:

    فکر پاکستان آپ بھی کس چکر میں پڑ گئے۔ اسمیں کوئی شک نہیں کہ اس پوسٹ کے پیچھے آپ کے بھپرے ہوئے جزبات بول رہے ہیں مگر کبھی کبھار بھپرے ہوئے جزبات کی تندہی بجائے خود مسائل پیدا کر دیتی اور گلے کو آنے لگتی ہے۔ میں نے بارہا محسوص کیا ہے کہ آپ اپنے جزبات کی رو میں تلخ ہوتے ہوئے اصل بات نہیں کہہ پاتے۔

    مثال کے طور پہ اگر آپ یہی بات نہائت آرام سے اور یوروپی کتوں وغیرہ کا حوالہ دئیے بغیر بھی کرتے تو شیاد بہتر طور پہ بات کہی جاسکتی تھی اور سمجھ میں آجاتی۔ میری رائے میں جو بات دہیمے لیجے میں کی جائے وہ سمندر کی ماند ہوتی ہے اور اسکا اثر دیرپا ہوتا۔ جبکہ تند و تلخ اور جزبات کے بھپرے حوالے و بیانات پہاڑی نالوں کی طرح تیز و تند ہوتے ہیں جو بارش کے ہٹتے ہی اپنا وجود کھو دیتے ہیں۔ یعنی اپنا اثر ختم کر دیتے ہیں۔

    آپ نے یوروپی کتوں کی مثال دی تو عرض ہے بہت ممکن ہے کہ انکے اسطرح پالنے پوسنے کی کچھ وجوہات وہی رہی ہوں جو آپ نے بیان کی ہیں مگر اسکے بہت سی دیگر وجوہات ہیں جو آپ کی نظر سے پوشیدہ ہیں۔

    یوروپ میں لوگ بچے نہیں پیدا کرتے۔ یا بہت کم بچے پیدا کرتے ہیں۔ اسلئیے یوروپ کے اکثر ممالک کی آبادی بڑھ نہیں رہی یا نا ہونے کے برابر بڑھ رہی ہے۔ اور جو آبادی بڑھ رہی ہے اسمیں پینسٹھ فیصد بچے یا تو ایمیگرنٹس یعنی غیر ملکی والدین سے یا پھر مقامی اور غیر ملکی کی آپس کی باہم شادیوں سے پیدا ہورے ہیں۔ اور یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ یوروپیوں کے نزدیک یوروپ میں ایک بچہ پالنا جہاں انتہائی جان جوکھوں کا کام سمجھا جاتا ہے وہیں اس بچے کو پالنے پہ کثیر اخراجات اٹھتے ہیں۔ جس وجہ سے یوروہین بچے بنانے کی بجائے کتے بلی رکھنے کو ترجیج دیتے ہیں۔ اور کچھ یوروپین وہ لوگ بھی کتے وغیرہ اپنی تنہائی کے خوف سے رکھتے ہیں جنہیں انکی اولادیں چھوڑ کر جاچکی ہیں اور وہ یہ کمی کتے بلیوں کو پال کر پوری کرتی ہے۔

    اس حوالے سے سیاسی سطح پہ یوروپ میں بہت فکر مندی پائی جاتی ہے کیونکہ جو لوگ یوروپ میں آتے جاتے ہیں یا مقیم ہیں وہ اس بات سے اتفاق کریں گے۔ کہ ان یوروپی ممالک کے ہاں ” سوشل سیکورٹی کی مد میں جو ٹیکسز آج کے ملازم اور مزدور اپنی تنخواہوں سے کٹواتے ہیں۔ اس سے ان کے بوڑھے شہیریوں کو پنشن دی جاتی ہے دوائیوں ۔ علاج معالجے اور طبی عملے کو تنخواہیں دی جاتی ہیں اور جب آج کے ورکر ریٹائرڈ ہونگے تو ان کی پنشن اور سہولتوں کا خرچہ اٹھانے کے لئیے وافر تعداد میں نوجوان ہی نہیں ہونگے تو انکے بڑھاپے کے لئیے پنشنوں کا بندوبست کیسے ہوگا۔ کیونکہ کتے بلیاں تو کام کرکے ٹیکسز نہیں جمع کروائیں گے۔ اسلئیے بھی سیاسی سطح پہ پریشانی پائی جاتی ہے کہ کتوں کو پالنے کی بجائے بچے پالیں جائیں۔

    مگر جنہیں انکے بچے اوائل عمری میں ہی چھوڑ کر جاچکے ہیں وہ بڑے میاں اور بڑی بی اور اب نوجوان طبقہ بھی اپنی تنہائی کو ختم کرنے کے لئیے کتے بلیاں پالنا شادی کی جھجنٹ کی نسبت ایک آسان حل سمجھتے ہیں۔ اسلئیے یہ مثال عمدہ نہیں نظر آتی۔

  2. Asif نے کہا:

    آپ شاید فوجی جرنیلوں کو بھول گئے ہیں!

    • fikrepakistan نے کہا:

      آصف بھائی فوجی جرنیلوں پر سیکنڈ لاسٹ پوسٹ لکھی ہے وہ پڑھہ سکتے ہیں آپ۔ فوجی جرنیلوں کے جرم اتنے وصیع ہیں کے اسکے لئیے تو الگ سے پوری پوری کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، اس پوسٹ کی اوقات ہی کیا ہے۔

  3. آپ کا مندرجہ ذيل خيال جذباتيت يا کم عِلمی کی علامت ہے ۔

    چونسٹھ سال سے روٹی کپڑا اور مکان کی سیاست کرنے والے سیاستدانوں اور مذہب کے نام پر کاروبار کرنے والے درندے مذہبی رہنماوں نے یہ سب کچھہ دیا ہے پاکستانیوں کو

    روٹی کپڑا مکان کی سياست سندھ کے ايک جابر وڈيرے نے64 سال نہيں 42 سال قبل 1969ء ميں شروع کی اور اُس کے نام ليوا اُسے آگے بڑھاتے چلے جا رہے ہيں ۔ کل وزيرِ ماليات عبدالحفيط شيخ نے بجٹ تقرير اُسی کے نام سے شروع کی کہ شايد اب بھی قبر سے يا آسمان سے ہدايات بھيجتا رہتا ہے
    مذہبی انتہاء پسندی عوام کا محبوب مشغلہ ہے کيونکہ چند سکے دے کر يا حلوہ يا کھير پکا کر وہ سمجھتے ہيں کہ سُرخرو ہو گئے ۔ آپ بتا سکتے ہيں کہ اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والوں ميں کتنے فيصد ہيں جنہوں نے قرآن شريف کو باترجمہ پڑھا کہ معلوم ہو قرآن شريف ميں اللہ نے کيا احکامات ديئے ہيں ؟ ايک فيصد بھی نہيں ہوں گے ۔ پھر آپ مُلا کو گالی کيوں ديتے ہيں ؟ جاہل مُلا عوام کی پسنديدہ صنف ہے ۔ باعلم مُلا کے ساتھ وہ سلوک کيا جاتا ہے جو پروفيسر غلام مرتضٰے ملک ۔ مولوی شامزئی اور ديگر عُلماء کرام کے ساتھ کيا گيا ۔ اپنی تابعداری ثابت کرنے کيلئے سينکڑوں يتيم اور نادار کمسن بچيوں کو فاسفورس والے گولے برسا کر ہلاک کر ديا جاتا ہے اور ان کے جسموں کے ٹکڑے رات کی تاريکی ميں غائب کر ديئے جاتے ہيں
    آپ کس سياست کی بات کر رہے ہيں ؟

    • fikrepakistan نے کہا:

      افتخار اجمل صاحب، بات سالوں کے تعداد کی نہیں ہے، بھٹو سے پہلے اس ملک میں دودھہ و شہد کی نہریں نہیں بہہ رہی تھیں، اس وقت بھی یہ ہی سب نظام تھا چہرے تبدیل ہوتے رہے ہیں بس نظام لیاقت علی خان صاحب کے شہادت کے بعد سے جو آج تک چل رہا ہو وہ ہی اس وقت بھی تھا۔ وہ ہی نادیدہ ہاتھہ آج بھی سر گرم ہیں جنہوں نے محترمہ فاطمہ جناح جیسے عظیم ہستی کو الیکشن ہروا دیا تھا۔ آپ تحریر کے مغز کو سمجھنے کی کوشش کرتے تو زیادہ اچھا ہوتا۔

  4. pakcom نے کہا:

    رات نیند کے دباؤ کی وجہ سے چاہتے ہوئے بھی بات مکمل نہ کر سکا۔

    اگر آپ ، ہم اور سبھی لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ملک کی تقدیر بدلے تو اسکے لئیے لازم ہے کہ موجودہ حکمران طبقے اور طرز حکمرانی سے جان چھڑائی جائے اور یہ بات میں اس لئیے نہیں لکھ رہا کہ آج ہی دھرنا دے کر موجودہ مختلف حکمران پارٹیوں کو گھر بیجھ دیا جائے۔ نہیں بلکہ یوں کرنا پاکستان کے ان مشکل حالات میں مزید اضافہ کرنا ہے۔ بلکہ ہونا یہ چاہئیے کہ انھیں باقی ماندہ سا ڈیڑھ سال مکمل کرنے دیا جائے تانکہ ملک میں انتشار نہ پھیلے مگر اس کے بعد کا وقت آنے سے پہلے ابھی سے تیاری کی جائے۔ کہ آنے والے وقتوں میں ہمیں کسطرح کے لوگ اور کسطرح کا انداز حکمرانی چننا ہے؟

    کیا ان حکمرانوں کی جگہ انہی کی طرح کے حکمران ہمیں منظور ہونگے؟۔ کیا اسی طرز حکمرانی کی طرح نئے حکمرانوں کی طرز حکمرانی قبول ہوگی؟۔ کیا محض چہرے بدل جانے سے ہماری قسمت بدل جائے گی؟ تو لازمی طور پہ سبھی صاحب فہم لوگوں کا جواب یہ ہی آئے گا کہ نہیں۔ ایسا کسی طور بھی پاکستان کے موجودہ حالات میں ممکن نہیں۔ تو اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر کیا کیا جائے؟ جس سے ملک کی تقدیر بدلے اور اس ملک کے پسے ہوئے عوام کو سر اٹھا کر باعزت طریقے سے جینے کا موقع ملے جس کے یہ جائز طور پہ مستحق ہیں۔ اور ہمارے عوام کی ہر قسم کی بنیادی ضروریات بغیر کسی تفکر اور پریشانی کے ہر روز اور ماہ بہ ماہ پوری ہوں؟۔

    عین یہ وہ وقت ہے جب آپ ایسے لوگوں کو سامنے لائیں جو انتہائی دیانتدار، باشعور، عمدہ سیاسی سوجھ بوجھ۔ اہل، بردبار، تحمل مزاج اور برداشت رکھنے والے، پڑھے لکھے، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ عام پاکستانی شہری کے مسائل کو سمجھنے کا فہم و ادراک اور انھیں حل کرنے کا وژن رکھتے ہوں۔ اور اپنے مقاصد کے ساتھ سچے ہوں۔

    ایسے لوگ ڈھونڈ لئیے جائیں تو پھر بھی ہمیں ہر انتخاب میں یا ہر چناؤ میں خواہ اسکا طریقہ کار کوئی بھی ہو۔ کہ پڑھے لکھے ووٹر حضرات کا ووٹ ناخواندہ لوگوں سے زیادہ اہمیت رکھتا ہو یا کوئی ایسا طریقہ ہو کہ ناخواندہ لوگوں کو بھی امیدواروں کی اہلیت جانچنے کا طریقہ سمجھایا جاسکے۔ الغرض اور یہ معجزہ ایک چار پانچ سالوں میں کبھی ممکن نہیں ہوسکتا۔ البتہ اتنے قلیل عرصے میں منزل کو جانے والا رستہ صاف نظر آنے لگے گا۔اس طرح کے کئی ایک چناؤ یعنی بیس بائیس برسوں کے بہت سے بہتر تریں کے متواتر چناؤ اور بیس بائیس سالوں کے پرلگن اور انتہائی اہلیت کے ساتھ دیانتادری سے لگاتار کام کرنے سے ہمیں کم ازکم یہ نظر آنا شروع ہوجائے گا کہ پاکستان اپنا وجود پارہا ہے اور سب سے بڑھ کر پاکستانی عوام اپنے آپ پہ فخر کرسکتی ہے اور انکی سبھی ضروریات زندگی انہیں ملنی شروع ہوگئیں ہیں جس میں عوام بھی اپنی محنت سے اسکا صلہ پانے لگے ہیں۔

    ابھی وقت ہے کہ پاکستان کے باشعور ، دردمند ، دیانتدار، بردبار تحمل مزاج ،پڑھے لکھے لوگ ہر قسم کی سیاسی مسلکی لسانی صوبائی علاقائی تعصب سے بلند ہو کر آگے بڑھیں۔ اور عام عوام انکے ہاتھ مضبوط کریں۔ جو کراچی تا خیبر۔ تفتان تا گوادر ایک بعد دوسرا کیمپ لگائیں لوگوں کو آگاہ کریں۔ جس میں ہر قسم کی سیاسی، مسلکی، لسانی، صوبائی، علاقائی وابستگی کی ممانعت ہو۔ اور اسکا ایجینڈا صرف اور صرف پاکستان اور اسکے عوام ہوں۔

    ایسا کیسے ہوگا؟ جب نیتوں میں اخلاص اور عمل میں جرائت ہو تو اللہ تعالٰی اسباب خود بخود پیدا کردیا کرتا ہے ۔ ورنہ خدشہ ہے کہ اگلے پینسٹھ سالوں میں بھی ہماری نسلیں یہی المیہ لکھ رہی ہونگی جس کی آپ نے نشاندہی کی ہے۔

    وضاحت۔ پاکستان کے عوام کے مسائل کا ادارک رکھنے کی شرظ اسلئیے لازم ہے کہ اگر سابقہ حکومتیں چاہتیں تو گلی محلے کی بہت سے مسائل مقامی سطح پہ حل ہوجاتے۔ اگر نہیں ہوتے تو اسمیں ہمارے بیرونی یونیورسٹیز سے بڑی بڑی مغربی طرز پہ مسائل حل کرنے کی ڈگریاں اٹھائے لوگ پاکستان میں ہمیشہ ناکام رہیں ہیں اور ناکام رہیں گے۔ اسکی وجہ انھیں پاکستان کے عام آدمی کی سوچ اور مسائل کا علم نہیں اور وہ آئی ایم ایف طرذ کے مغربی اور بنے بنائے حل ٹھوسنے کی کوشش کرتے ہین جو ہمیشہ پاکستان جسیے معاشروں میں ناکام ہوتے ہیں۔

    اگر خلوص نیت سے متعلقہ محکمے اور وزارتیں جن کی بری بڑی عمارتیں اسلام آباد میں قائم ہیں اور اربوں روپے کے فنڈ ہیں۔ مگر صرف کاغزی وجود رکھتے ہیں۔ اگر پچھلے تیس پینتیس سالوں سے انکے صرف میٹرک پاس اہلکار ہی خلوص نیت سے گلی محلے میں ریڑھی لگانے والے۔ قرون وسطٰی کے وقت کے اوزاروں سے کسان پیشہ۔ لوہے کا کام کرنے والوں۔ نئے نئے ہنر مندی کے پیشوں کو محض نئے قسم کے جدید اوازاروں اور انکی خداداد صلاحیتوں کو چھوٹی موٹی تربیت ، چند گر، اور چھوٹے موٹے کاروباروں کے لئیے بے آسرا خواتیں کو معمعولی نوعیت کے قرضے جو واپس لئیے جاتے ۔ انکے کاروبار میں حکومت شراکت دار بھی ہوسکت تھی۔ ایک ہزار ایک حل تھے ۔ معاشرے انہی چھوٹی چھوٹی انقلابی تبدیلیوں سے بہت دفعہ سنور جاتے ہیں۔ جبکہ اسطرح کے ہر قسم کے ادارے پاکستان میں موجود ہیں مگر اسلام آباد سے اس طرف انکا وجود کہیں نظر نہیں آتا کیونکہ خلوص نیت اور عوام کے مسائل کا ادراک رکھنے والے اہل لوگ وہاں نہیں۔

    • fikrepakistan نے کہا:

      جاوید بھائی، اتنے تفصیلی تجزیئے کے لئیے بہت بہت شکریہ، ماشاءاللہ سے آپ نے بہت ہی گہرائی میں جا کر معاملے کو سمجھا ہے، اور بہترین حل بھی تجویز کئیے ہیں۔ جاوید بھائی مجھے خود بہت تکلیف ہوتی ہے اپنے ہم وطنوں اپنے بھائیوں کے بارے میں اسطرح کے حقائق لکھتے ہوئے، مگر کیا کریں یہ ہی سچ ہے۔ مجھہ سے سیاسی اور مذہنی رہنماوں کی طرح یہ منافقت نہیں ہوتی کے میں ایک ایسی قوم کو چنے کے جھاڑ پر چڑھاوں کے ہم غیور ہیں، با شعور ہیں، عظیم ہیں، پاسبان ہیں، آنے والے دور کے انسان ہم سے جینا سیکھیں گے۔ یہ سب انتہائی بیہودہ بکواس بلکے یہ ہتھیار ہیں ان رہنماوں کے ان جاہل اور بے شعور لوگوں کے گلوریفائی کرنے کے۔ میں اگر آپ سے مخلص ہوں کے میں آپکو آپکی خامیاں بتاوں گا تاکے آپ انکا سدباب کر سکیں۔ یہ وقت ہے قوم کے انکا حقیقی چہرہ دکھانے کا، انہیں بتانے کا کے دنیا کہاں سے کہاں پہنچ چکے ہے اور تم آج تک، قوم پرستی اور فرقہ بندی سے ہیں نہیں نکل پائے۔ ان سب نام نہاد رہنماوں نے پوری قوم کے دماغوں کے بری طرح سے جکڑ رکھا ہے، انپڑھہ لوگوں سے شکوہ ہی کیا آپ اس بلاگ پر پڑھے لگھے اور نام نہاد باشعور لوگوں کے رویے بھی خوب جانتے اور پہچانتے ہیں کے جیسے ہی انکے من پسند فرقہ یا مسلک پر کوئی دو الفاظ کہہ دو تو کیسے انکی دم پر پاوں آجاتا ہے، کسی کی قومیت پر کوئی حرف اٹھا دو تو کیسے دم کے بل کھڑا ہوکر ناچنے لگتا ہے وہ۔ آپ نے بلکل درست فرمایا کے پہلے ایک قوم تو بن جاو۔ ابھی تو اتنے ٹکڑوں میں بٹے ہوئے ہیں کے ان ٹکڑوں کے گنتی تک ممکن نہیں۔ اپنے دشمنوں کے پہچانیں سامنے نظر آرہے ہیں وہ لوگ جنہوں نے مجھے اور آپکو قومیتوں اور مسلکوں میں بانٹ دیا ہے، لیکن اتنے عظیم بےغیرت ہیں ہم کے پھر بھی ان ہی کو اپنا خدا مانتے ہوئے ان ہی کے ہاتھہ مظبوط کیئے جارہے ہیں۔ جاوید بھائی آپکی رہنمائی کا بہت بہت شکریہ۔

  5. منیر عباسی نے کہا:

    پہلے تو میرے پلے کچھ پڑا ہی نہیں کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں۔ آپ کی تنقید کی توپوں کا رُخ اب کس جانب ہے اور اس کی وجہ کیا بنی۔ مگر پھر بفرض محال آپ کی یہ سب تنقید درست ٹھہرتی ہے تو اس کا حل کیا تجویز کرتے ہیں آپ؟ تنقید کرنا تو بہت آسان کام ہے۔ شائد دنیا کا سب سے آسان کام۔

    اب جب کہ آپ نے بنیادی غلطی کی طرف اشارہ کر ہی دیا ہے تو حل بھی تجویز کر دیجئے۔

    • fikrepakistan نے کہا:

      منیر بھائی اتنے سادہ انداز میں کی گئی معاشرے کی ترجمانی بھی اگر آپکی سمجھہ میں نہیں آئی تو کوئی کیا کرئے، حل بھی اس تحریر میں ہی موجود ہے اگر دل کی گہرائی سے اس حقیقت کے آئینے کو اگر سچ مان لیا جائے تو۔ جاوید گوندل بھائی نے وہ ہی حل مکمل طور پر تفصیل کے ساتھہ بیان کردیا ہے، کوئی اگر واقعی دل سے پاکستان کی اور پاکستانیوں کے حالت زار بدلنے کی خواہش رکھتا ہے تو جاوید بھائی کے تفصیلی تجزیئے پر ہر طرح کے تعصب، قومیت، نسل پرستی، فرقہ بندی اور مسلک پرستی سے بالا تر ہوکر صرف اور صرف پاکستانی بن جائے، اور جس شعور کی بیداری کی طرف جاوید بھائی نے اشارہ دیا ہے اس پر عمل پیرا ہو جائے، یہ ٹھیک ہے کے مثبت نتائج فوراَ ہی حاصل نہیں ہوجائیں گے بہت ٹائم لگے ہم نہیں ہماری آنے والی نسلیں شاید اس مقام پر پہنچ جائیں جہاں سے ہم خود کو اشرف المخلوقات کہلوانے میں فخر محسوس کریں۔

  6. pakcom نے کہا:

    معذرت خواہ ہوں بتانا بھول گیا کہ میں جاوید گوندل ہوں

  7. Ansoo نے کہا:

    Bohut ala muhtaram ,jazakAllah sab nai itna kuch likha hai k main Kia likhon bass yaee hum sab jantay hain k(uth baand kamar Kia darta hai phir deekh khuda Kia karta hai) hamaree khudii he sogaee hai ,or Allah tab tak hedayat nahee deta jabtak aap khuud na mangoo.hum sirf dua Ka hedayat Ka aeek dosray say kahtay hain khud zabaan hilana bhi ghawara nahin kartay.

    • fikrepakistan نے کہا:

      کمر باندھہ کر اٹھنے کے لئیے ایک قوم کا ہونا ضروری ہے، سب سے پہلا قدم ہی ہر طرح کے قومیت لسانیت مسلک اور فرقہ بندی سے نکل کر ایک قوم بننا ہوگا، اسکے بعد ہی تبدیلی کا کوئی عمل شروع کیا جاسکتا ہے۔

  8. sheikho نے کہا:

    اچھا موازنہ کیا ہے آپ نے ۔۔۔۔۔تو پھر ہم پاکستانی خود کو کس درجے میں رکھیں

  9. Abdullah نے کہا:

    لیکن بقول وزیر خزانہ حفیظ شیخ کہ اس میں سب سے بڑی تشویش کی بات یہ ہے کہ اٹھارہ کروڑ آبادی والے ملک پاکستان میں ٹیکس دینے والے لوگوں کی تعداد اور رقم ’جی ڈی پی‘ کی شرح کے اعتبار سے دنیا کے اکثر ممالک سے کم ہے۔ حالانکہ حفیظ شیخ بجٹ تقریر کے دوران وہ یہ حصہ پڑھنا بھول گئے یا پھر اپوزیشن کے شور کی وجہ سے چھوڑ دیا جس میں انہوں نے تحریری طور پر بتایا ہے کہ سری لنکا میں جی ڈی پی کی شرح کے اعتبار سے لوگ چودہ فیصد ٹیکس دیتے ہیں، جبکہ بھارت میں یہ شرح سولہ، ملائیشیا میں اٹھارہ اور ترکی میں انتیس فیصد ہے لیکن پاکستان میں دس فیصد سے بھی کم ہے۔

    دوسرے الفاظ میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں امیر لوگ اور تاجر حضرات ایمانداری سے ٹیکس ادا نہیں کرتے۔’اگر ہمیں اپنی خودمختاری کے بارے میں تشویش ہے اور ہم خود انحصاری پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ملکی سطح پر آمدن بڑھانی ہوگی۔ ہماری آبادی اٹھارہ کروڑ ہے لیکن اٹھائیس لاکھ لوگ صرف انکم ٹیکس دیتے ہیں اور پندرہ لاکھ اپنے گوشوارے جمع کراتے ہیں۔‘

  10. جناب دودھ اور شہد کی نہريں تو صرف اُن کے نصيب ميں ہوں گی جو جنت ميں جائيں گے ۔ اس دنيا ميں تو محاورے صرف دِل پشوری کرنے کيلئے ہيں ۔ کيا آپ جانتے ہيں ؟

    1 ۔ پاکستان کا پہلا بجٹ جو فروری 1948ء کو پاکستان کی قانون ساز اسمبلی ميں منظور ہوا وہ خسارے کا بجٹ تھا کيونکہ انگريز حُکمران جاتے ہوئے پورے ہندوستان کے تمام اثاثے بھارت کے حوالے کر گئے تھے اور پاکستان کو لاکھوں لُٹے پُٹے مہاجرين جن ميں زخمی بھی تھے کی آبادکاری اور بحالی کا بندوبست بھی کرنا پڑا
    دوسرا بجٹ فروری 1949ء ميں منظور ہوا تو وہ سرپلس بجٹ تھا ۔ اس کے بعد 1969ء تک تمام بجٹ سر پلس تھے

    2 ۔ پاکستان کے پہلے وزيرِ اعظم نوابزادہ لياقت علی خان کو جب قتل کر ديا گيا تو ان کے پاس بنک بيلنس سميت اتنی رقم نہ تھی کہ ان کے کفن دفن کا بندوبست ہو سکے تو وہاں موجود مخيّر حضرات نے يہ بندوبست کيا

    کاش ميرے ہموطن کچھ کہنے سے قبل تاريخ کا مطالعہ کر ليا کريں

  11. Abdullah نے کہا:

    ا
    عنیقہ بالکل سچ کہتی ہیں واقعی جھوٹ کے پاؤں نہیں ہوتے!!!!
    ن مومنین کے کرتوت دیکھیں اور واہ واہ کریں ،
    یہ ہے وہ لنک جو اس منافق اعظم اور جاہل اعظم نے لگایا!
    بظاہر یہ 23 مئی 2011
    ڈان اخبار ہے!
    http://www.dawn.com/2011/05/23/2009-us-assessment-of-karachi-violence.html
    اسے کھولنے پر اوپر بلوگ اور فورم بھی لکھا نظرآتا ہے!
    اور یہ کوئی خبر نہیں بلکہ ایک بلوگ پوسٹ ٹائپ افواہ ہے!
    اور یہ ہے ،
    23 مئی 2011
    کا اصلی ڈان اخبار،
    http://www.dawn.com/postt?post_year=2011&post_month=5&post_day=23&monthname=May&medium=newspaper&category=37&categoryName=Front Page
    اب آپ ان دونون لنکس مین فرق ڈھونڈیئے،یہ آپ تمام حضرات کی ذہانت کا امتحان ہے!!!!!!

    اور پھر آپ حضرات اس ڈان مین وہ خبر ڈھونڈیئے جس کا لنک اس منافق اعظم نے لگایا ہے!
    مجھ کم نظر کو تو نظر نہیں آئی،شائد آپلوگوں کو دکھ جائے!!!!!

    یہ جھوٹے اور ایجینسیوں کے کتے مجھے گھر پہنچا رہے تھے!!!!
    اب دیکھنا یہ ہے کہ کون کتنا بڑا جھوٹا ہے اور کون کس کو گھر پہنچاتا ہے!!!!

    ویسے یہ کوئی نئی بات تو ہے نہیں ،
    ایجینسیون کے پے رول پر بھونکنے والے ،
    ایسی جھوٹی خبریں ہمیشہ سے ہی ایم کیو ایم کے خلاف بنابنا کر پھیلاتے رہے ہیں!
    کبھی واشنگٹن پوسٹ لاہور سے چھپنا شروع ہوجاتا ہےتو کبھی لندن پوسٹ!!!

    ہمیشہ انکا جھوٹ انہی کے گلے میں آکر پڑتا ہے مگریہ بے غیرت اپنی ذلالتون سے باز آنے والے کہاں!
    میں یہ تبصرہ اور بھی کئی بلاگس پر پوسٹ کررہا ہوں اگر تم نے نہیں چھاپا تب بھی سب کو لگ پتہ جائے گا،
    کیاسمجھے!!!!

    یہ گند یہاں گھولا جارہاہے!
    http://www.qalamkarwan.com/2011/06/mqm-and-wikileakes-i-could-not-understand.html#comment-140

تبصرہ کریں