تخلیق کے گلاب غلاضت میں نہیں کھلتے


راشد ادریس رانا صاحب کی حالیہ تحریر پڑھی http://ranasillia.blogspot.com/2013/04/blog-post_12.html?utm_source=feedburner&utm_medium=feed&utm_campaign=Feed%3A+ranasillia+%28Rashid+Idrees+Rana%29

جس پر کچھہ کمنٹ کرنے کا دل چاہا کمنٹ لکھنے بیٹھا تھا پوری پوسٹ ہی ہوگئی۔

آخر میں پھر وہی بات کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی ناکامی سے کامیابی کا راستہ نکال لیتے ہیں اور ایک ہم ہیں کہ اللہ رب العزت نے کامیابیاں ہمارے مقدر میں لکھ دیں کیوں کہ ہم اہل دین، اہل اسلام اورمسلمان ہیں لیکن ہم کامیاب ہو کر بھی ہر چیز میں ناکامی کی طرف بھاگتے ہیں. . . . . . . .

درج بالا پیراگراف راشد بھائی کی تحریر کا آخری پیراگراف ہے اور اس پیراگراف نے ہی مجھے یہ تحریر لکھنے پر مجبور کیا ہے۔

تخلیقی سوچ تخلیقی ماحول کے بطن سے جنم لیتی ہے، لیکن یہ آخری نہیں پہلی شرط ہے، اسکے علاوہ بھی کچھہ عوامل ہیں جو کسی بھی معاشرے کو تخلیقی معاشرہ بننے میں مدد دیتے ہیں، مغرب کی برتری کی یوں تو اور بھی بہت سی وجوہات ہیں لیکن مشرق اور مغرب میں جو چیز بنیادی فرق پیدا کرتی ہے وہ ہے انکا تخلیقی ماحول، آگ کسی کاغذ کے ٹکڑے پر لکھنا بہت ہی آسان ہے، لیکن اس ہی جلتے ہوئے کاغذ کے ٹکڑے کو اپنی ہتھیلی پر رکھنا بہت مشکل کام ہے، ٹھیک اس ہی طرح تخلیقی ماحول کہہ دینا بہت آسان ہے لیکن تخلیقی ماحول پیدا کرنا بہت ہی مشکل کام ہے، خود مغرب کو اپنے معاشرے کو تخلیقی معاشرہ بنانے میں صدیوں کا سفر طے کرنا پڑا ہے۔

جنگ گروپ کے مالک میر شکیل الرحمان کے بیٹے نے بتایا تھا کہ میں نے اپنے دادا سے پوچھا تھا کہ آپ نے مجھے تعلیم حاصل کرنے کے لئیے امریکہ کیوں بھیجا؟ اسکے دادا نے کہا میں نے تمہیں تعلیم کے حصول کے لئیے امریکہ اسلئیے بھیجا کہ وہ لوگ سوال کرنا سکھاتے ہیں، جبکہ یہ ہمارا عمومی رویہ ہے کہ بچہ جہاں دو سوال کرلے تو ہم اسے چپ کروا دیتے ہیں اور تلقین کرتے ہیں کہ بڑوں سے سوال نہیں کرتے، جیسا کہا جائے چپ چاپ اس پر عمل کرلیا کرو، مسجد میں مولوی صاحب سے واعظ کے دوران غیر مطعلقہ سوال کرلیا، مولوی صاحب نے جواب دینے کے بجائے کہا کیا قیامت کے روز اللہ تم سے یہ سوال کرئے گا؟ ایسے سوالوں میں کیوں اپنا دماغ کھپاتے ہو جن کا آخرت سے کوئی تعلق نہیں؟ اپنا دماغ صرف ایسے کاموں میں لگاو جن سے تمہاری آخرت سنور سکے۔

آپ غور کریں جب آپ کسی بڑی پریشانی میں گھرے ہوئے ہوں اور ایسے میں آپ سے کوئی شخص اس وقت کے لحاظ سے کوئی غیر ضروری سوال کرلے یا کوئی ایسا کام کہہ دے جسے کرنے میں اس وقت آپکو تردد ہو، تو آپ اسے کہتے ہیں برائے مہربانی اس وقت میں بہت پریشان ہوں مجھے تنگ نہ کرو مجھے کچھہ دیر کے لئیے تنہا چھوڑ دو، یا آپ کہتے ہیں اس وقت میرے احساسات منتشر ہیں مجھے کچھہ سمجھہ نہیں آرہا کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں، جب میں اس پریشانی سے نکل جاوں گا پھر سکون سے اس مسلے پر بات کریں گے، یا آپ شدید غصے کی حالت میں ہوں آپکا پورا بدن شدد سے لرز رہا ہو اور ایسے میں آپ سے کوئی کہے بھائی زرا سوئی میں دھاگہ پرو دیں گے؟ ایسے میں آپ سوئی میں دھاگہ پرونے کہ بجائے سوئی اپنی انگلی میں پرو بیٹھیں گے، ایسا ہم سب کے ساتھہ ہوتا ہے اور یہ فطری بھی ہے ہونا بھی چاہئیے،

تمہید کا مقصد یہ بارآوار کروانا ہے کہ اگر آپکا ذہن منتشر ہے، آپ یکسو نہیں ہیں، آپکا چہرہ آپکی آنکھیں آپکی زبان کا ساتھہ نہیں دے پا رہے تو تخلیقی کام تو بہت ہی دور آپ روز مرہ کے کام بھی کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔

غور کریں کے ہمارے جیسے معاشروں میں نوئے فیصد لوگوں کے مسائل کیا ہوتے ہیں؟ بیرورزگاری، غربت، علاج معالجے کا فقدان، تعلیم کا قحط، بے انصافی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، روزگار کے نام پر بیگار، بجلی گیس کے اضافی بل، اور پھر ان ہی دونوں چیزوں کا فقدان، عزت اور جان و مال کا تحفظ، بیٹی کی شادی کے اخراجات، مہنگائی زیادہ آمدنی کم، اپنا گھر کی تعمیر، مناسب سواری، ملاوٹ زدہ چیزوں کا استعمال، حالت یہ ہے کہ کیڑے مارنے کی دوا لے کر آو تو اس میں بھی چار دن بعد کیڑے پڑ جاتے ہیں، یہ سب اور ان جیسے کچھہ اور مسائل جو کہ ہمارے جیسے معاشروں کا خاصہ ہیں یہ لوگوں کی اکثریت کے یکساں مسائل ہیں، اب آپ اندازہ کریں کہ جب انسان غصے کی حالت میں سوئی میں دھاگہ نہیں پرو سکتا تو پھر اتنی ساری تفکرات کے ساتھہ اسکے ذہن میں نئی سوچ کہاں سے آسکتی ہے؟ دماغ کی نس نس میں یہ سب مسائل گھر کئیے ہوئے ہوں تو نئے خیال کو جگہ کہاں سے ملے گی؟ نیا خیال نئی سوچ ہمارے جیسے معاشرے کے لوگوں کے دماغوں کے باہر کھڑے رہتے ہیں اور ساری عمر دماغ کے اندر داخل ہونے کے لئیے اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے ہیں اور افسوس کے انکے اندر جانے کی باری آنے سے پہلے موت کی باری آجاتی ہے، بس میں لوگ چڑھتے اور اترتے رہتے ہیں جسکی وجہ سے بس میں نئے آنے والے کو بھی سیٹ مل ہی جاتی ہے، ایک اترتا ہے تو دوسرے کو سیٹ پر بیٹھنے کی جگہ مل جاتی ہے، وہ تو بس ہے، اور ہم بے بس ہیں، یہاں ہوش سنبھالتے ہی جو تفکرات دماغ میں گھرکرتے ہیں تو مرتے دم تک کسی اور چیز کو ہمارے دماغ، ہمارے شعور میں داخل ہی نہیں ہونے دیتے۔

ایسے معاشروں میں بھلا کوئی کیا نیا سوچ سکتا ہے؟ نئی سوچ نیا خیال، تخلیق، یہ سب کسی نازک حسینہ کی طرح بہت ہی مغرور ہوتے ہیں، یہ اپنی شرطوں پر ہی آتے ہیں، ہماری شرطوں پر تو بنگلہ دیش کی کرکٹ ٹیم نہیں آرہی، تو یہ قیمتی اثاثہ کیسے ہماری شرطوں پر ہمیں مل سکتا ہے؟ ہمارے جیسے بانج معاشرے کی کوئی ٹکے کی حسینہ کسی کالے پیلے کو منہ نہیں لگاتی، تو یہ جینئین حسینہ کیسے پھپھوندی لگے دماغوں کے حجلہ عروسی میں قدم رنجا فرما سکتی ہے؟ جہاں محض پندرہ بیس فیصد شرح خواندگی ہو، جہاں لوگ اپنی پوری زندگی محض دو سے ڈھائی سو الفاظوں پر مشتمل گفتگو پر گزار دیتے ہوں، جہاں غریب ہونا غلیظ ہونے کے مترادف ہو، جہاں سوال کرنا نافرمانی کے زمرے میں آتا ہو، جہاں زندگی کا مقصد صرف دو جگہوں کے بارے میں یعنیٰ، ناف کے پیچھے اور ناف کے نیچے کے بارے میں سوچنا ہو، ایسے معاشروں میں نئے خیال، نئی سوچ، تخلیق، کا کیا کام؟۔

تخلیق کے گلاب غلاضت میں نہیں کھلتے، وہ ایسے معاشروں میں کھلتے ہیں  جہاں سوچ آذاد ہو، جہاں فکرآزاد ہو، جہاں، زبان آزاد ہو،جہاں بینائی آزاد ہو، جہاں کان آزاد ہوں، ایسے معاشروں میں نہیں جہاں، کے ای ایس سی، آپ کے روز مرہ کے امور کا تعین کرتی ہو کہ کس وقت آپ کو آرام کرنا ہے، کس وقت آپکو کام کرنا ہے، کس وقت آپکو طعام فرمانا ہے، کس وقت آپکو پڑھنا ہے، کس وقت آپکو مہمان نوازی کرنی ہے، کس وقت آپکو زندگی کے اور دوسرے ضروری فیصلے کرنے ہیں،چوبیس گھنٹوں میں سے بارہ گھنٹے لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے، ہماری آدھی زندگی تو، کے ای ایس سی، جی رہا ہے،  اب تو یہ حال ہے کہ نئے شادی شدہ جوڑے کا یہ فیصلہ بھی کے ای ایس سی، کرتا ہے کہ اسے سہاگ رات منانی ہے یا سہاگ سویرا۔

جہاں مسجدوں، مدرسوں میں، واعظوں میں، صرف وہ سنوایا جائے جو نام نہاد مذہبی رہنماء اپنے فرقے کہ لحاظ سے سنوانا چاہتے ہوں، جہاں میڈیا صرف وہ دکھائے جو ملک کےاشرافیا دکھانا چاہتے ہیں، جہاں صرف اتنا ہی بولنے کی اجازت ہو جتنا اشرافیا کے کان ہضم کرسکیں، جہاں علم کو، دینی علم اور دنیوی علم میں بانٹ دیا جائے، جہاں انتخابی امیدوار پیشے کے خانے میں سیاست لکھہ رہے ہوں، جہاں فیصلے کا اختیار اہلیت کے بجائے ضعیف العمری کو دیا جاتا ہو، جہاں دو کتے خطرے کی بو سونگتے ہی کہتے ہوں یہاں سے بھاگ چل ورنہ انسان کی موت مارا جائے گا، جہاں نکاح مشکل اور زنا انتہائی آسان بنا دیا گیا ہو، جہاں انسان پیٹ کی سوچ لئیے جاگتا ہو اور پیٹ کی سوچ لئیے ہی سوجاتا ہو، جہاں کسی کے پاس آسمان کو دیکھنے تک کا وقت یا شعور نہ ہو،  کتنے لوگ ہیں جو آسمان کی ساخت پر یہ سوچ کر غور و فکر کرتے ہونگے کہ اللہ نے قرآن پاک میں سورہ آلِ عمران، میں یہ فرمایا ہے کہ تم آسمان کی ساخت پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے؟ کتنےلوگ ہونگے ہم میں سے جنہوں نے مہینوں سے آسمان کی طرف نظر اٹھا کر اس سوچ کے تحت دیکھا ہوگا کے یہ اللہ کی خوبصورت تخلیق کیسے اور کس بنیاد پر ازل سے کھڑی ہے اور ابد تک کھڑی رہے گی؟۔ آسمان پر غور کون کرے گا یہاں تو زمین کے اندر چھپے خزانوں پر بھی کفار نے ہی غور و فکر کر کے عرب کو بتایا کے تمہاری زمینوں میں اللہ تعالیٰ نے کیا کیا خزانے پوشیدہ رکھے ہیں، گرمی سب سے زیادہ عرب میں پڑتی ہے جبکہ مغرب ٹھنڈا ترین ہے، لیکن پھر بھی ائرکنڈیشنڈ بنانے کا خیال مغرب کو ہی کیوں آیا؟ عرب کے لوگوں کو گرمی میں سڑنے کے باواجود یہ خیال کیوں نہیں آیا؟۔

مغرب نے پہلا کام ہی یہ کیا کہ اپنے لوگوں کو ان سب سوچوں سے آذاد کردیا، انکے ہاں جب کوئی کام کر رہا ہو تو اسکے دماغ میں یہ خیال نہیں ہوتا کہ گھر میں بچے بھوکے ہونگے، گھر میں بجلی پانی گیس نہیں ہیں، کے ای ایس سی، نے بل زیادہ بھیج دیا ہے وہ کہاں سے ادا ہوگا؟ بیٹی کے جہیز کا بندوپست کہاں سے ہوگا؟ بارش ہورہی ہے، گھر کی چھت ٹپک رہی ہوگی بچے محفوظ ہونگے؟ پانچ سال کی بچی گھر سے ٹافیاں لینے نکلے گی تو کسی درندے کی حوس کا نشانہ نہ بن جائے، میرا بیٹا ڈبو پر جواء نا کھیل رہا ہو، ماں کی مہنگی دوائیاں کہاں سے خریدوں گا؟ نہ ہی اسے آفس تک آنے کے لئیے جانوروں کی طرح بس کی چھت پر سفر کر کے آنا پڑ رہا ہے، ہمارے ہاں تو اگر قسمت سے بس کے اندر جگہ مل بھی جائے تو اگر آپ چنے لے کر بس میں سوار ہوئے ہیں تو واپس بیسن لے کر اترتے ہیں، انکے معاشرے میں یہ سب زلتیں نہیں ہوتیں، یہ سب بنیادی ضرورتیں گورنمنٹ کی زمہ داری ہے وہ ہر حال میں آپکو مہیہ کرے گی۔

ناروے اس وقت دنیا کے بہترین ملکوں میں پہلے نمبر پر آتا ہے، میں پڑھہ رہا تھا کہ اگرآپ ناروے کے شہری ہیں اورآپ نے گورنمنٹ کو درخواست دی ہے کہ میرے پاس گھر نہیں ہے مجھے رہنے کے لئیے گھر دیا جائے، تو ناروے کی گورنمنٹ جس وقت تک آپ کے لئیے گھر کا بندوبست نہیں کر دیتی اس وقت تک وہ آپکو پوری فیملی سمیت سیون اسٹار ہوٹل میں ٹھرائے گی اپنے خرچے پر۔ یہ ہوتے ہیں انسانوں کے معاشرے یہ ہوتا ہے پر فضاء صاف ستھرا ماحول، ملاوٹ سے پاک غذائیں، پر امن معاشرہ، جہاں انسان تو انسان کیڑے مکوڑوں تک کے حقوق مقرر کئے جاتے ہیں، جہاں گلے تک بھر کے بنیادی ضروریات دی جاتی ہیں، تو ایسے معاشروں میں ہی تخلیق نمو پاتی ہے، ایسے معاشروں میں ہی نئے خیالات پرورش پاتے ہیں، ایسے معاشروں میں ہی قرآن کے احکامات، تفکر، تدبر، تحقیق، تلاش، پر عمل کیا جاتا ہے، ہمارے جیسے لاوارث معاشروں میں صرف چوری کے نئے نئے طریقے ہی ایجاد ہوسکتے ہیں اس سے زیادہ سوچنا بھی بیل سے دودھہ نکالنے کے مترادف ہوگا۔

تخلیق کے گلاب غلاضت میں نہیں کھلتے، تخلیق کے گلاب غلاضت میں نہیں کھلتے۔

This entry was posted in ہمارا معاشرہ. Bookmark the permalink.

4 Responses to تخلیق کے گلاب غلاضت میں نہیں کھلتے

  1. Iftikhar Ajmal Bhopal نے کہا:

    اتنا بتا دیجئے کہ امریکا والے ماہرینِ طب مشرق کی دریافت کردہ طبی نباتات کو جنہیں وہ رد کر چکے تھے اب ترجیح کیوں دینے لگ گئے ہیں ؟
    اور ہاں ۔ آپ کی اس تحریر سے تو یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ امریکیوں کی فطرت اور مشرقی لوگوں کی فطرت میں نمایاں فرق ہے ۔ جبکہ آپ کہہ چکے ہیں کہ انسان کی فطرت اول روز سے مقرر ہے

    • fikrepakistan نے کہا:

      حضرت دنیا کا ہر انسان دینِ فطرت پر ہی پیدا ہوتا ہے، یہ جو لوگ بھی غیر فطری طرز عمل اپناتے ہیں وہ دراصل اپنی فطرت کو مسخ کر کے غیر فطری عمل اپناتے ہیں، اگر کوئی اپنی فطرت کو مسخ کرلیتا ہے تو اس سے فطرت کے اصول نہیں بدل جاتے وہ اپنی جگہ ہی رہتے ہیں، مثال کے طور پر اللہ نے مرد اور عورت کے ملاپ کو شادی کی صورت میں جائز قرار دیا ہے کیوں کے یہ فطری چیز ہے مرد کا عورت کی طرف اور عورت کا مرد کی طرف راغبت رکھنا عین فطری عمل ہے، اسلئیے ہی کچھہ پیمانوں کے ساتھہ یہ جائز ہے، اب اگر کوئی ہوموسیکس کی طرف رغبت رکھتا ہے تو یہ بنیادی طور پہ غیر فطری ہے وہ اپنی فطرت کو مسخ کر کے ایسی خواہش کی تکمیل کر رہا ہے، اسکے فطرت کو مسخ کردینے سے فطرت کے اپنے اصولوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ اپنی جگہ مسلم ہی اور ملسم ہی رہیں گے۔ غیر فطری کام پاکستان میں کرئے کوئی یا امریکہ میں وہ غیر فطری ہی کہلائے گا۔ فطرت کے علاوہ کچھہ تمدن کے تقاضے بھی ہوتے ہیں، موسم اور ماحول کے اثرات بھی ہوتے ہیں، ہمارے ہاں گاوں میں لوگ موسم گرما میں دھوتی پہن لیتے ہیں تاکے گرمی کی شدت سے بچا جاسکے، انکے ہاں گرمی نسبتاَ کم پڑتی ہے اسلئیے وہ اپنے موسم کے لحاظ سے ہی لباس زیب تن کرتے ہیں، یہ ہی طور طریقے کھانے پینے رہن سہن سے مطعلق ہوتے ہیں۔ اس میں فطرت کی بحث کہاں سے آگئی؟

      اور طب کی جو بات آپ نے کی ہے وہ معلوم نہیں کونسی دنیا کی بات کر رہے ہیں ساری دنیا میں اس وقت جو علاج رائج ہے وہ تو ایلوپیتھک ہی ہے اور ایلوپیتھک کس کا وضع کردہ ہے یہ بھی ساری دنیا جانتی ہے، خود ہمارے معاشرے میں اب تو حکیم ناپید ہوچکے ہیں۔

  2. بہت دنوں بعد یہاں تک پہنچا!!!! بہر حال جو بھی لکھا آپ نے کافی تلخ سچائی لکھی۔۔۔۔ شکریہ

Leave a reply to Iftikhar Ajmal Bhopal جواب منسوخ کریں