توہینِ رسالت کا قانون اور اسکے سقم


توہین رسالت کی سزا کا جو قانون ریاست پاکستان میں نافذ ہے، اُس کا کوئی ماخذ قرآن و حدیث میں تلاش نہیں کیا جا سکتا۔اِس لیے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ قانون کہاں سے اخذ کیا گیا ہے؟ اِس سوال کے جواب میں بعض اہل علم نے فرمایا ہے کہ یہ سورہ مائدہ (٥) کی آیات ٣٣-٣٤ سے ماخوذ ہو سکتا ہے۔ اُن کا ارشاد ہے کہ مائدہ کی اِن آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے محاربہ اور فساد فی الارض کی سزا بیان فرمائی ہے اور اُس کے رسول کی توہین و تحقیر بھی محاربہ ہی کی ایک صورت ہے۔ آیات یہ ہیں.

اِنَّمَا جَزٰۤؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اللّهَٰ وَرَسُوْلَه، وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْۤا اَوْ يُصَلَّبُوْۤا اَوْ تُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْا مِنَ الْاَرْضِ، ذٰلِكَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ، اِلَّا الَّذِيْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَيْهِمْ، فَاعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ. (٥:٣٣-٣٤)

”جو لوگ اللہ اور اُس کے رسول سے لڑیں گے اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش کریں گے، اُن کی سزا پھر یہی ہے کہ عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں یا سولی پر چڑھا ئے جائیں یا اُن کے ہاتھ پاؤں بے ترتیب کاٹ دیے جائیں یا اُنھیں علاقہ بدر کر دیا جائے۔ یہ اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں اُن کے لیے ایک بڑا عذاب ہے، مگر اُن کے لیے نہیں جو تمھارے قابو پانے سے پہلے توبہ کر لیں۔ سو (اُن پر زیادتی نہ کرو اور) اچھی طرح سمجھ لو کہ اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔”

اِس قانون کے ماخذ سے متعلق دوسرے نقطہ ہاے نظر کی طرح یہ راے بھی ہمارے نزدیک محل نظر ہے۔

اولاً، اِس لیے کہ آیت میں ‘يُحَارِبُوْنَ’کا لفظ ہے۔ یہ لفظ تقاضا کرتا ہے کہ آیت میں جو سزائیں بیان ہوئی ہیں، وہ اُسی صورت میں دی جائیں جب مجرم سرکشی کے ساتھ توہین پر اصرار کرے؛فساد انگیزی پر اتر آئے؛ دعوت، تبلیغ، تلقین و نصیحت اور بار بار کی تنبیہ کے باوجود باز نہ آئے، بلکہ مقابلے کے لیے کھڑا ہو جائے۔ آدمی الزام سے انکار کرے یا اپنی بات کی وضاحت کر دے اور اُس پر اصرار نہ کرے تو لفظ کے کسی مفہوم میں بھی اِسے محاربہ یا فساد قرار نہیں دیا جا سکتا۔

ثانیاً، اِس لیے کہ اقرار و اصرار کے بعد بھی مجرم قانون کی گرفت میں آنے سے پہلے توبہ اور رجوع کر لے تو قرآن کا ارشاد ہے کہ اُس پر حکم کا اطلاق نہیں ہو گا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ توبہ کرلینے والوں کو یہ سزائیں نہیں دی جا سکتیں۔ اِس سے یہ بات بھی نکلتی ہے کہ کارروائی سے پہلے اُنھیں توبہ و اصلاح کی دعوت دینی چاہیے اور بار بار توجہ دلانی چاہیے کہ وہ خدا و رسول کے ماننے والے ہیں تو اپنی عاقبت برباد نہ کریں اور اُن کے سامنے سرتسلیم خم کر دیں اور ماننے والے نہیں ہیں تو مسلمانوں کے جذبات کا احترام کریں اور اِس جرم شنیع سے باز آجائیں۔

ثالثاً، اِس لیے کہ آیت کی رو سے یہ ضروری نہیں ہے کہ اُنھیں قتل ہی کیا جائے۔ اُس میں یہ گنجایش رکھی گئی ہے کہ جرم کی نوعیت اور مجرم کے حالات تقاضا کرتے ہوں تو عدالت اُسے کم تر سزا بھی دے سکتی ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اِس طرح کے مجرموں کو علاقہ بدر کر دیا جائے۔

اِس وقت جو قانون نافذ ہے، اِن میں سے کوئی بات بھی اُس میں ملحوظ نہیں رکھی گئی۔ وہ مجردشہادت پر سزا دیتا ہے، اُس میں انکار یا اقرار کو بھی وہ اہمیت نہیں دی گئی جس کا آیت تقاضا کرتی ہے، سرکشی اور اصرار بھی ضروری نہیں ہے، دعوت و تبلیغ اور اِس کے نتیجے میں توبہ اور اصلاح کی بھی گنجایش نہیں ہے، اُس کی رو سے قتل کے سوا کوئی دوسری سزا بھی نہیں دی جا سکتی۔ علما اگر آیت محاربہ کو قانون کا ماخذ مان کر اُس کے مطابق ترمیم کے لیے راضی ہو جائیں تو اِس سے اچھی بات کیا ہو سکتی ہے۔ اِس کے نتیجے میں وہ تمام اعتراضات ختم ہو جائیں گے جو اِس وقت اِس قانون پر کیے جا رہے ہیں۔ قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ موت کی سزا کسی شخص کو دو ہی صورتوں میں دی جا سکتی ہے: ایک یہ کہ وہ کسی کو قتل کر دے، دوسرے یہ کہ ملک میں فساد برپا کرے اور لوگوں کی جان، مال اور آبرو کے لیے خطرہ بن جائے۔ آیت محاربہ کے مطابق ترمیم کر دی جائے تو قرآن کا یہ تقاضا پورا ہو جائے گا۔ پھر یہی نہیں، قانون بڑی حد تک اُس نقطہ نظر کے قريب بھی ہو جائے گا جو فقہ اسلامی کے جلیل القدر امام ابو حنیفہ اور جليل ا لقدر محدث امام بخاری نے اختیار فرمایا ہے۔ ہمارے نزدیک يہی نقطہ نظر اِس معاملے میں قرین صواب ہے۔ ریاست پاکستان میں احناف کی اکثریت ہے، لیکن باعث تعجب ہے کہ قانون سازی کے موقع پر اُن کی راے یکسر نظر انداز کر دی گئی ہے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ موجودہ قانون قرآن کے بھی خلاف ہے، حدیث کے بھی خلاف ہے اور فقہاے احناف کی راے کے بھی خلاف ہے۔ اِسے لازماً تبدیل ہونا چاہیے۔ یہ پوری دنیا میں اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا باعث بن رہا ہے۔

توہین رسالت کی سزا کے جو واقعات بالعموم نقل کیے جاتے ہیں، اُن کی حقیقت بھی سمجھ لینی چاہیے۔ ابو رافع اُن لوگوں میں سے تھا جو غزوئہ خندق میں قبائل کو مدینہ پر چڑھا لانے کے مجرم تھے۔ ابن اسحاق کے الفاظ میں ، ‘فیمن حزب الاحزاب علی رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم’۔کعب بن اشرف کے بارے میں مؤرخین نے لکھا ہے کہ غزوہ بدر کے بعد اُس نے مکہ جا کر قریش کے مقتولین کے مرثیے کہے جن میں انتقام کی ترغیب تھی ، مسلمان عورتوں کا نام لے کر تشبیب لکھی اور مسلمانوں کو اذیت پہنچائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکومت میں رہتے ہوئے آپ کے خلاف لوگوں کو بر انگیختہ کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ بعض روایتوں کے مطابق آپ کو دھوکے سے قتل کر دینا چاہا۔ عبداللہ بن خطل کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکوٰۃ کی تحصیل کے لیے بھیجا۔ اُس کے ساتھ ایک انصاری اور ایک مسلمان خادم بھی تھا۔ راستے میں حکم عدولی پر اُس نے خادم کو قتل کر دیا اور مرتد ہو کر مکہ بھاگ گیا۔١پھر یہی نہیں، یہ تینوں خدا کے رسول کی طرف سے اتمام حجت کے باوجود آپ کی تکذیب پر مصر رہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ قانون قرآن میں جگہ جگہ بیان فرمایا ہے کہ رسولوں کے براہ راست مخاطبین عذاب کی زد میں ہوتے ہیں۔ چنانچہ معاندت پر اتر آئیں تو قتل بھی کیے جا سکتے ہیں۔

اِس سے واضح ہے کہ یہ محض توہین کے مجرم نہیں تھے، بلکہ اِن سب جرائم کے مرتکب بھی ہوئے تھے۔ لہٰذا اِنھی کی پاداش میں قتل کیے گئے۔ عبداللہ بن خطل ایک خونی مجرم تھا۔ اُس کے بارے میں اِسی بنا پر حکم دیا گیا کہ کعبے کے پردوں میں بھی چھپا ہوا ہو تو اُسے قتل کر دیا جائے۔

اِسی طرح کے مجرم تھے جن کا ذکر سورہ احزاب میں ہوا ہے۔ خدا کے پیغمبر سے مسلمانوں کو برگشتہ اور بدگمان کرنے اور اسلام اور مسلمانوں کی اخلاقی ساکھ بالکل برباد کر دینے کے لیے یہ اُن کی خانگی زندگی کے بارے میں افسانے تراشتے، بہتان لگاتے اور اسکینڈل پیدا کرتے تھے، ازواج مطہرات سے نکاح کے ارمان ظاہر کرتے تھے، مسلمانوں میں گھبراہٹ پھیلانے اور اُن کے حوصلے پست کرنے کے لیے طرح طرح کی افواہیں اڑاتے تھے، مسلمان عورتیں جب رات کی تاریکی میں یا صبح منہ اندھیرے رفع حاجت کے لیے نکلتی تھیں تو اُن کے درپے آزار ہوتے اور اِس پر گرفت کی جاتی تو اِس طرح کے بہانے تراش کر اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے تھے کہ ہم نے تو فلاں اور فلاں کی لونڈی سمجھ کر اُن سے فلاں بات معلوم کرنا چاہی تھی۔ اِن کے بارے میں یہ سب چیزیں قرآن کے اشارات سے بھی واضح ہیں اور روایتوں میں بھی صراحت کے ساتھ بیان ہوئی ہیں۔٢ چنانچہ فرمایا کہ مسلمان عورتیں اپنی کوئی چادر اوپر ڈال کر باہر نکلیں تاکہ لونڈیوں سے الگ پہچانی جائیں اور اُن کو ستانے کے لیے یہ اِس طرح کے بہانے نہ تراش سکیں۔ نیز فرمایا کہ یہ اشرار بھی متنبہ ہو جائیں کہ اِن حرکتوں سے باز نہ آئے تو عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں گے:

لَئِنْ لَّمْ يَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَالَّذِيْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّالْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِيْنَةِ لَنُغْرِيَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا يُجَاوِرُوْنَكَ فِيْهَآ اِلَّا قَليِْلًا، مَّلْعُوْنِيْنَ، اَيْنَمَا ثُقِفُوْۤا اُخِذُوْا وَقُتِّلُوْا تَقْتِيْلًا. (٣٣: ٦٠-٦١)

”یہ منافق اگر (اِس کے بعد بھی) اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے اور وہ بھی جن کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ بھی جو مدینہ میں جھوٹ اڑانے والے ہیں تو ہم اِن کے خلاف تمھیں اٹھا کھڑا کریں گے۔ پھر وہ مشکل ہی سے تمھارے ساتھ رہ سکیں گے۔ اِن پر پھٹکار ہو گی، جہاں ملیں گے پکڑے جائیں گے اور عبرت ناک طریقے سے قتل کر دیے جائیں گے۔”

اِن کے علاوہ جو واقعات سنائے جاتے ہیں، وہ اگرچہ سند کے لحاظ سے ناقابل التفات ہیں، لیکن بالفرض ہوئے ہوں تو اُن کی نوعیت بھی یہی سمجھنی چاہیے کہ منکرین کے سب و شتم سے اُن کی معاندت پوری طرح ظاہر ہو جانے کے بعد رسولوں کی تکذیب کا وہ قانون اُن پر نافذ کر دیا گیا جو قرآن میں ایک سنت الٰہی کی حیثیت سے مذکور ہے۔ بعض مقتولین کے خون کو ہدر قرار دینے کی وجہ بھی یہی تھی۔ ‘ لا يقتل مسلم بکافر’٣ اِسی کا بیان ہے۔ علما اِن حقائق سے واقف ہیں، لیکن اِس کے باوجود اُن کا اصرار ہے کہ اِن واقعات سے وہ توہین رسالت کا قانون اخذ کریں گے۔

یہاں ہو سکتا ہے کہ کوئی شخص اُس قصے سے بھی استدلال کرنا چاہے جو سیدنا عمر کے متعلق بیان کیا جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تسلیم نہ کرنے پر اُنھوں نے ایک شخص کی گردن اڑا دی تھی۔ ہمارے علما یہ واقعہ منبروں پر سناتے اور لوگوں کو بالواسطہ ترغیب دیتے ہیں کہ توہین رسالت کے مرتکبین کے ساتھ وہ بھی یہی سلوک کریں، مگر حقیقت یہ ہے کہ حدیث کے پہلے، دوسرے ، یہاں تک کہ تیسرے درجے کی کتابیں بھی اِس واقعے سے خالی ہیں۔ ابن جریر طبری ہر طرح کی تفسیری روایتیں نقل کر دیتے ہیں، مگر اُنھوں نے بھی اِسے قابل اعتنا نہیں سمجھا۔یہ ايک غريب اور مرسل روايت ہے جسے بعض مفسرين نے اپنی تفسيروں ميں نقل ضرور کيا ہے ،ليکن جن لوگوں کو علم حديث سے کچھ بہرہ حاصل ہے ، اُنھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اِس کی سند بالکل واہی ہے اور ابن مردويہ اور ابن ابی حاتم کی سندوں ميں اِس کا راوی ابن لہیعہ ضعیف ہے۔٤ اِس کے بارے میں یہ بات بھی بالکل غلط ہے کہ مفسرین سورہ نساء (٤) کی آیت ٦٥ کی شان نزول کے طور پر یہی واقعہ بیان کرتے ہیں۔ نساء کی یہ آیت اگرچہ کسی شان نزول کی محتاج نہیں ہے، تاہم جو واقعہ امام بخاری اور دوسرے ائمہ محدثین نے اِس کی شان نزول کے طور پر بیان کیا ہے اور جسے مفسرین بالعموم نقل کرتے ہیں، وہ اِس کے برخلاف یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر کا ایک انصاری سے پانی پر اختلاف ہو گیا۔ معاملہ حضور کے سامنے پیش ہوا تو آپ نے فرمایا کہ زبیر اپنے کھیت کو سیراب کرکے باقی پانی اُس کے لیے چھوڑ دیں گے۔ اِس پر انصاری نے فوراً کہا: یا رسول اللہ، اِس لیے نا کہ زبیر آپ کے پھوپھی زاد بھائی ہیں؟ یہ صریح بے انصافی اور اقرباپروری کا اتہام اور انتہائی گستاخی کی بات تھی۔ چنانچہ بیان کیا گیا ہے کہ آپ کے چہرے کا رنگ بدل گیا، مگر آپ نے اِس کے سوا کچھ نہیں کیا کہ اپنی بات مزید وضاحت کے ساتھ دہرا دی اور فرمایا کہ کھیت کی منڈیر تک پانی روک کر باقی اُس کے لیے چھوڑ دیا جائے۔٥

علما کو حسن انتخاب کی داد دینی چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عفو و درگذر اور رأفت و رحمت کی یہ روایت تو اُنھوں نے نظر انداز کر دی ہے، جبکہ یہ بخاری و مسلم میں مذکور ہے اور حضرت عمر کے گردن ماردینے کی ضعیف اور ناقابل التفات روایت ہر جگہ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ سنا رہے ہیں۔

This entry was posted in زمرے کے بغیر. Bookmark the permalink.

1 Responses to توہینِ رسالت کا قانون اور اسکے سقم

  1. Jameel نے کہا:

    يہ بھی سن ليں ذرا کھلے دل سے-

تبصرہ کریں