اسلام میں عورتوں اور مردوں کے درمیان تفریق


سوال: کیا دین نے عورتوں اور مردوں کے احکام میں فرق کیا ہے؟ بعض معاشروں میں عورتوں کے ساتھ تفریق کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے، مثلاً سعودی عرب میں عورتیں گاڑی نہیں چلا سکتیں۔ ہمارے ہاں کچھ گھرانوں میں اور برادریوں میں عورتوں کو وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا، باوجود اس کے کہ شریعت نے اسے مقرر بھی کر دیا ہے۔

جواب: قرآن مجید یہ اعلان کرتا ہے کہ مرد و عورت کے مابین انسان ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے۔ دونوں آدم و حوا کی اولاد ہیں اور دونوں کو اللہ تعالیٰ نے ایک ہی مقصد سے پیدا کیا ہے۔

جب دنیا میں انسان ایک دوسرے کے ساتھ معاملہ کرتے ہیں تو اس معاملے میں رشتے اور تعلقات پیدا ہوتے ہیں۔ اصل میں یہ تعلقات ہیں جن میں بعض اوقات حفظ ِمراتب کا لحاظ کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر جب ہم خاندان کا ادارہ وجود میں لاتے ہیں تو ماں اور باپ کے رشتے پیدا ہو جاتے ہیں۔ اب ماں اور باپ میں خِلقت کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے، لیکن اس سے ایک مرد کو والد اور ایک خاتون کو ماں کی جو حیثیت حاصل ہو گئی ہے،اس میں بھی حفظِ مراتب کو ملحوظ رکھنا پڑتا ہے۔ اس طرح ان رشتوں میں کوئی چھوٹا ہو جاتا ہے اور کوئی بڑا، لیکن خلقت کے اعتبار سے یہ سب برابر ہی ہیں۔

اسی طرح جب آپ ریاست کا نظم بناتے ہیں، کوئی ادارہ قائم کرتے ہیں، اس میںکچھ لوگوں کو ذمہ داریاں دیتے ہیں توان کے لحاظ سے مراتب کا فرق پیدا ہو جاتا ہے اور اس میں بعض اوقات آپ کو ایسے قاعدے قوانین بھی بنانے پڑتے ہیں، جو اس فرق کا لحاظ کر کے بنائے گئے ہوں۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ جس شخص کو ہم نے سربراہ مملکت بنا دیا ہے، وہ خلقت کے لحاظ سے کوئی بڑی چیز بن گیا ہے یا کوئی مختلف چیز بن گیا ہے۔ یہ مراتب کا فرق ہے جس کو بعض لوگ اس دائرے میں نہیں رکھتے جس میں اللہ تعالیٰ نے اس کو رکھا ہے۔ وہ اسے بہت آگے بڑھا کر وہ صورتیں پیدا کر دیتے ہیں جن کی طر ف سوال میں اشارہ کیا گیا ہے۔

قرآن مجید میں یہ بات کہیں بھی موجود نہیں کہ عورت گاڑی نہیں چلا سکتی یا اس کو اگر باہر شاپنگ کے لیے جانا ہے تو اسے کسی کو ساتھ لے جانے والے کا اہتمام کرنا ہو گا۔ اصل میں یہ مسئلہ اس وجہ سے پیدا ہوا کہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ کہا کہ اگر دو تین دن کے سفر پر کوئی خاتون نکلتی ہے تو اپنے کسی محرم عزیز کو ساتھ لے لے تاکہ اس پر کوئی تہمت نہ لگ جائے، کوئی فتنہ نہ پیدا ہو جائے۔ اس زمانے کے حالات کے لحاظ سے یہ بڑی عمدہ ہدایت ہے۔ آپ اس زمانے کے سفر کا اندازہ کیجیے۔ اونٹ گھوڑے پر سفر کرنا، قافلوں میں جانا، سراؤں اور پڑاؤ میں رہنا۔ اس سارے پس منظر میں اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت کو دیکھیں تو اس کی معنویت بالکل ٹھیک واضح ہو جاتی ہے۔ لیکن آج کے دور میں معاملہ بہت مختلف ہو گیا ہے۔ مواصلات کے ذرائع میں بہت ترقی ہو چکی ہے۔ آپ چند منٹ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ بڑے اطمینان کے ساتھ پہنچ جاتے ہیں۔ یعنی دس کلو میٹر کا سفر پہلے جو مسائل پیدا کرتا تھا وہ اب ہزاروں میل کا سفر بھی پیدا نہیں کرتا۔ اتنی بڑی تبدیلی آ گئی۔ اس تبدیلی کو ملحوظ نہ رکھنے سے اس طرح کے مسائل پیدا ہو ں گے۔

اس طرح سے ایک کے بعد دوسرا مسئلہ آپ نکالتے چلے جاتے ہیں اور نتیجے کے طور پر دین کو ایک ایسی چیز بنا دیتے ہیںکہ جس سے بعض اوقات اہل ِعقل محسوس کرتے ہیں کہ صورت حال مضحکہ خیز سی ہو گئی ہے۔ دین اور فقہ کے احکام،دونوں کو الگ الگ سمجھنا چاہےے، اللہ اور اللہ کے پیغمبر کے احکام اور چیز ہیں، جب کہ ان کی بنیاد پر بننے والی فقہ ایک بالکل اور چیز ہے۔ فقہ ایک انسانی چیز ہے اور اس پر ہر دور میں نظر ثانی ہوتی رہنی چاہیے۔

This entry was posted in مذہب. Bookmark the permalink.

1 Responses to اسلام میں عورتوں اور مردوں کے درمیان تفریق

  1. محمد ذیشان نے کہا:

    صحرا میں دیوانے کی صدا اچھی لگی۔۔۔۔!!!

    ایک نظر ادھر۔۔۔

    زمانہ قبل اسلام میں عورت کا سماجی مقام http://realisticapproach.org/?p=5274

    ہمارے مغالطے …ہم نے عورتوں کو تمام حقوق دے دئیے ہیں
    http://thelalajie.wordpress.com/2012/06/18/womenrights

تبصرہ کریں